سنن نسائي
كتاب الزينة من السنن -- کتاب: زیب و زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
40. بَابُ : تَحْرِيمِ الذَّهَبِ عَلَى الرِّجَالِ
باب: مردوں کے لیے سونا استعمال کرنے کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5157
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو شَيْخٍ، عَنْ أَخِيهِ حِمَّانَ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ عَامَ حَجَّ جَمَعَ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْكَعْبَةِ، فَقَالَ لَهُمْ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ , هَلْ" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ لُبُوسِ الذَّهَبِ"؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: وَأَنَا أَشْهَدُ. خَالَفَهُ الْأَوْزَاعِيُّ عَلَى اخْتِلَافِ أَصْحَابِهِ عَلَيْهِ فِيهِ.
ابوشیخ کے بھائی حمان سے روایت ہے کہ جس سال معاویہ رضی اللہ عنہ نے حج کیا، صحابہ کرام کی ایک جماعت کو کعبے میں اکٹھا کر کے ان سے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا؟ لوگوں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: میں بھی اس کا گواہ ہوں۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) اوزاعی نے حرب بن شداد کے خلاف روایت کی ہے جب کہ خود اوزاعی کے شاگرد ان سے روایت کرنے میں مختلف ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 5156 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5157  
´مردوں کے لیے سونا استعمال کرنے کی حرمت کا بیان۔`
ابوشیخ کے بھائی حمان سے روایت ہے کہ جس سال معاویہ رضی اللہ عنہ نے حج کیا، صحابہ کرام کی ایک جماعت کو کعبے میں اکٹھا کر کے ان سے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا؟ لوگوں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: میں بھی اس کا گواہ ہوں۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) اوزاعی نے حرب بن شداد کے خلاف روایت کی ہے جب کہ خود اوزاعی کے شاگرد ان سے روایت کرنے میں مختلف ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5157]
اردو حاشہ:
اوزاعی رحمہ اللہ نے حرب بن شداد کی مخالفت اس طرح کی ہے کہ وہ یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: حدثني أبوشیخ، قال: حدثني حمان، جبکہ حرب بن شداد نے حمان کی بجائے عن اخیه حمان‘ کہا ہے جیسا کہ پہلے اس کی وضاحت کی جا چکی ہے اوزاعی کے شاگردوں کا اس پر اختلاف یوں ہے (جس کی تفصیل اگلی روایات میں آرہی ہے) کہ شعیب نے اوزاعی سے بیان کیا تو کہا: حدثني أبوشیخ قال: حدثني حمان، قال حج معاوية..... عمارة بن بشر نے اس سے بیان کیا تو کہا: حدثني أبواسحاق، قال: حدثني حمان، قال حج معاویة اوزاعی کے ایک شاگرد عقبہ (ابن علقمہ معافری بیروتی) نے اوزاعی سے بیان کیا تو کہا: حدثنی ابو اسحاق، قال: حدثنی ابن حمان، قال: حج معاویة.... اوزاعی کے چوتھے شاگرد یحیی بن حمزہ نے بیان کیا تو اوزاعی کے دیگر بیان کرنے والے تینوں شاگردوں سے اختلاف کرتے ہوئے کہا: حدثنا یحییٰ: حدثنا حمان قال: حج معاویة.... خلاصۂ کلام یہ ہے کہ شعیب نے، اپنے استاد اوزاعی سے یحیی بن ابی کثیر والی روایت بیان کی تو یحیی بن ابی کثیر کا استاد ابوشیخ کو بیان کیا ہے۔ عمارہ بن بشر نے اوزاعی سے یحیی کی روایت بیان کی تو یحییٰ بن ابی کثیر کا استاد ابو اسحاق السبیعی کو قراردیا ہے۔ اوزاعی کے ایک اورشاگرد یحییٰ بن حمزہ نے یہی روایت بیان کی تو یحییٰ بن ابی کثیر کا استاد حمان بیان کیا۔مزید تفصیل کےلیے دیکھئے (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي للأتیوبي:38؍227۔229)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5157   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4131  
´چیتوں اور درندوں کی کھال کا بیان۔`
خالد کہتے ہیں مقدام بن معدی کرب، عمرو بن اسود اور بنی اسد کے قنسرین کے رہنے والے ایک شخص معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے مقدام سے کہا: کیا آپ کو خبر ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا انتقال ہو گیا؟ مقدام نے یہ سن کر «انا لله وانا اليه راجعون» پڑھا تو ان سے ایک شخص نے کہا: کیا آپ اسے کوئی مصیبت سمجھتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں اسے مصیبت کیوں نہ سمجھوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی گود میں بٹھایا، اور فرمایا: یہ میرے مشابہ ہے، اور حسین علی کے۔‏‏‏‏ یہ سن کر اسدی نے کہا: ایک انگارہ تھا ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4131]
فوائد ومسائل:
1: صحابہ کرام رضہ اللہ حق بات کہنے میں بڑے جری تھے، حضرت مقدام رضی اللہ کو حضرت معاویہ کی امارت سے کوئی خوف نہ آیا اور بے دھڑک حق بات کہی۔

2: اس مکالمے کے شروع میں جو آیا ہے ایک آدمی نے کہا اس کے قائل شاید حضرت معاویہ ہی ہوں، جسے ادبًا مبہم رکھا گیا ہے۔

3: بنو امیہ اور اہل بیت کے خاندانوں میں سیاسی امور میں ان کے خا ص رحجانات تھے، یہ تاریخ اسلام کا انتہائی پریشان کن دور تھا جو گزر گیا۔
اب تمام صحابہ کرام رضہ اللہ کے لئے دعا گو ہیں اور کسی کے متعلق اپنے دل میں کو ئی بغض نہیں رکھتے۔
ایک مورخ کو حسب وقائع کسی بھی جانب میلان کا حق حاصل ہے، مگر خیال رہے کہ دوسری جانب بھی جلیل لقدرصحابہ ہیں۔

4: حضرت معاویہ رضی اللہ کے متعلق جو ذکر ہو ان کے گھر میں ریشم اور درندوں کی کھالیں استعمال ہوتی تھیں تو شاید فرامین رسول ؐ کی کوئی تاویل کرتے ہوں گے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4131