سنن نسائي
كتاب الزينة من السنن -- کتاب: زیب و زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
40. بَابُ : تَحْرِيمِ الذَّهَبِ عَلَى الرِّجَالِ
باب: مردوں کے لیے سونا استعمال کرنے کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5163
أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ غُرَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَيْهَسُ بْنُ فَهْدَانَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو شَيْخٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ، إِلَّا مُقَطَّعًا". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: حَدِيثُ النَّضْرِ أَشْبَهُ بِالصَّوَابِ , وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
ابوشیخ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو سنا کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے الا یہ کہ وہ «مقطع» ہو (تو جائز ہے)۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: نضر کی حدیث زیادہ قرین صواب ہے۔ (یعنی: بیھس کی سند سے بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہونا زیادہ صواب ہے)۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8588) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5163  
´مردوں کے لیے سونا استعمال کرنے کی حرمت کا بیان۔`
ابوشیخ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو سنا کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے الا یہ کہ وہ «مقطع» ہو (تو جائز ہے)۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: نضر کی حدیث زیادہ قرین صواب ہے۔ (یعنی: بیھس کی سند سے بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہونا زیادہ صواب ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5163]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ مذکورہ روایت سے پہلی روایت (حدیث: 5162) زیادہ درست ہے جو کہ نضربن شمیل بیہس بن فہد ان سے، وہ ابوشیخ ہنائی سے اور وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں جبکہ مذکورہ روایت: 5163 جو کہ علی بن غراب نے بیہس بن فہدان سے، اس نے ابوشیخ سے اور اس نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کی ہے، یہ روایت ابن عمر کی مسند کے طور پر تو ضعیف ہے، تاہم اس کا متن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی مسند کی وجہ سے صحیح ہے۔ نضربن شمیل علی بن غراب سے کہیں زیادہ حافظ اور اثبت ہے جبکہ علی بن غراب تو ضعیف و مدلس اور شیعہ تھا۔ واللہ أعلم۔
(2) ترجمے میں چونکہ سند ذکر نہیں ہوتی، لہٰذا قارئین کے لیے ایک روایت کا اس قدر زیادہ تکرار ملال و اکتاہٹ کا باعث بنتا ہے اور انہیں یہ بے فائدہ معلوم ہوتا ہے لیکن امام نسائی ؒ نے مقصود سند کے بیان میں اختلاف ظاہر کرنا ہے جو حدیث کی حیثیت جانچنے کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور محدثین کے نزدیک یہ انتہائی، قیمتی مفید اور دلچسپ چیز ہوتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5163   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4131  
´چیتوں اور درندوں کی کھال کا بیان۔`
خالد کہتے ہیں مقدام بن معدی کرب، عمرو بن اسود اور بنی اسد کے قنسرین کے رہنے والے ایک شخص معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے مقدام سے کہا: کیا آپ کو خبر ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا انتقال ہو گیا؟ مقدام نے یہ سن کر «انا لله وانا اليه راجعون» پڑھا تو ان سے ایک شخص نے کہا: کیا آپ اسے کوئی مصیبت سمجھتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں اسے مصیبت کیوں نہ سمجھوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی گود میں بٹھایا، اور فرمایا: یہ میرے مشابہ ہے، اور حسین علی کے۔‏‏‏‏ یہ سن کر اسدی نے کہا: ایک انگارہ تھا ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4131]
فوائد ومسائل:
1: صحابہ کرام رضہ اللہ حق بات کہنے میں بڑے جری تھے، حضرت مقدام رضی اللہ کو حضرت معاویہ کی امارت سے کوئی خوف نہ آیا اور بے دھڑک حق بات کہی۔

2: اس مکالمے کے شروع میں جو آیا ہے ایک آدمی نے کہا اس کے قائل شاید حضرت معاویہ ہی ہوں، جسے ادبًا مبہم رکھا گیا ہے۔

3: بنو امیہ اور اہل بیت کے خاندانوں میں سیاسی امور میں ان کے خا ص رحجانات تھے، یہ تاریخ اسلام کا انتہائی پریشان کن دور تھا جو گزر گیا۔
اب تمام صحابہ کرام رضہ اللہ کے لئے دعا گو ہیں اور کسی کے متعلق اپنے دل میں کو ئی بغض نہیں رکھتے۔
ایک مورخ کو حسب وقائع کسی بھی جانب میلان کا حق حاصل ہے، مگر خیال رہے کہ دوسری جانب بھی جلیل لقدرصحابہ ہیں۔

4: حضرت معاویہ رضی اللہ کے متعلق جو ذکر ہو ان کے گھر میں ریشم اور درندوں کی کھالیں استعمال ہوتی تھیں تو شاید فرامین رسول ؐ کی کوئی تاویل کرتے ہوں گے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4131