سنن نسائي
كتاب الزينة من السنن -- کتاب: زیب و زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
47. بَابُ : صِفَةِ خَاتَمِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم
باب: نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کے وصف کا بیان۔
حدیث نمبر: 5199
أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ:" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ وَرِقٍ، فَصُّهُ حَبَشِيٌّ وَنُقِشَ فِيهِ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی جس کا نگینہ حبشی تھا ۱؎ اور اس میں ـ «محمد رسول اللہ» نقش کیا گیا تھا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللباس 47 (5866)، 50 (5874)، 52 (5875)، 54 (5877)، صحیح مسلم/اللباس 12، 13 (92)، سنن ابی داود/الخاتم 1 (2416)، سنن الترمذی/اللباس 14 (1739)، الشمائل 11 (92)، سنن ابن ماجہ/اللباس39(3641)، (تحفة الأشراف: 1554)، مسند احمد (3/161، 181، 209، 223)، وانظر الأرقام: 5279، 5281 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ایک دوسری حدیث نمبر (۵۲۰۱) کے مطابق نگینہ چاندی ہی کا تھا، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ حبشی طرز کا تھا یا اس کا بنانے والا حبشی تھا، ایک قول یہ بھی ہے کہ ممکن ہے آپ کے پاس دو انگوٹھیاں رہی ہوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 65  
´مناولہ کا بیان`
«. . . قَالَ:" كَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا أَوْ أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ، فَقِيلَ لَهُ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کسی بادشاہ کے نام دعوت اسلام دینے کے لیے) ایک خط لکھا یا لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ وہ بغیر مہر کے خط نہیں پڑھتے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 65]

تشریح:
مناولہ اصطلاح محدثین میں اسے کہتے ہیں اپنی اصل مرویات اور مسموعات کی کتاب جس میں اپنے استادوں سے سن کر حدیثیں لکھ رکھی ہوں اپنے کسی شاگرد کے حوالہ کر دی جائے اور اس کتاب میں درج شدہ احادیث کو روایت کرنے کی اس کو اجازت بھی دے دی جائے، تو یہ جائز ہے اور حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہی ہے۔ اگر اپنی کتاب حوالہ کرتے ہوئے روایت کرنے کی اجازت نہ دے تو اس صورت میں «حدثني» یا «اخبرني فلاں» کہنا جائز نہیں ہے۔ حدیث نمبر 64 میں کسریٰ کے لیے بددعا کا ذکر ہے کیوں کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک چاک کر ڈالا تھا، چنانچہ خود اس کے بیٹے نے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالا۔ سو جب وہ مرنے لگا تو اس نے دواؤں کا خزانہ کھولا اور زہر کے ڈبے پر لکھ دیا کہ یہ دوا قوت باہ کے لیے اکسیر ہے۔ وہ بیٹا جماع کا بہت شوق رکھتا تھا جب وہ مر گیا اور اس کے بیٹے نے دواخانے میں اس ڈبے پر یہ لکھا ہوا دیکھا تو اس کو وہ کھا گیا اور وہ بھی مر گیا۔ اسی دن سے اس سلطنت میں تنزل شروع ہوا، آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔ ایران کے ہر بادشاہ کا لقب کسریٰ ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے کے کسریٰ کا نام پرویز بن ہرمزبن نوشیروان تھا، اسی کو خسرو پرویز بھی کہتے ہیں۔ اس کے قاتل بیٹے کا نام شیرویہ تھا، خلافت فاروقی میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ایران فتح ہوا۔

مناولہ کے ساتھ باب میں مکاتبت کا ذکر ہے جس سے مراد یہ کہ استاد اپنے ہاتھ سے خط لکھے یا کسی اور سے لکھوا کر شاگرد کے پاس بھیجے، شاگرد اس صورت میں بھی اس کو اپنے استاد سے روایت کر سکتا ہے۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی خداداد قوت اجتہاد کی بنا پر ہر دو مذکورہ احادیث سے ان اصطلاحات کو ثابت فرمایا ہے پھر تعجب ہے ان کم فہموں پر جو حضرت امام کو غیر فقیہ اور زود رنج اور محض ناقل حدیث سمجھ کر آپ کی تخفیف کے درپے ہیں۔ «نعوذ بالله من شرورانفسنا»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 65   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5199  
´نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کے وصف کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی جس کا نگینہ حبشی تھا ۱؎ اور اس میں ـ «محمد رسول اللہ» نقش کیا گیا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5199]
اردو حاشہ:
(1) وہ سونے کی تھی یا چاندی کی یا کسی اور چیز کی، نیز اس کا نگینہ تھا یا نہیں تھا اور اگرتھا تو کس طرح کا تھا۔ وغیرہ۔ اور یہ تمام تر تفصیل مذکو رہ باب کے تحت مروی روایات میں مکمل طور پر بیان کی گئی ہیں۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مرد اور عورت ہردو کے لیے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز اور مشروع ہے۔ بعض روایات میں سلطان اور حاکم کے علاوہ دوسرے لوگوں کو انگوٹھی پہننے سے منع کیا گیا ہے تو ان دونوں قسم کی روایات میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ نہی تنزیہ پر محمول ہے، یعنی حاکم وغیرہ کے علاوہ دیگر لوگوں کے لیے انگوٹھی نہ پہننا بہتر ہے۔ واللہ أعلم۔
(3) انگوٹھی یا اس کے نگینے پر کوئی نقش وغیرہ بنوانا جائز ہے، نیز اپنا نام یا کوئی کلمۂ حکمت وغیرہ بھی کندہ کرایا جاسکتا ہے۔ اہل علم کے صحیح قول کے مطابق اس پر اللہ تعالی کا اسم مبارک اللہ بھی کندہ کرایا اور لکھوایا جاسکتا ہے۔ بعض علماء نے اس سے منع کیا ہے لیکن ممانعت والا قول ضعیف اور مرجوح قراردیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ سونے کی انگوٹھی کی طرح سونے کا نگینہ بھی ناجائز ہوگا۔
(4) حبشی یعنی حبشی انداز کا بنا ہوا تھا۔ یا حبشہ کا بنا ہوا تھا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس عقیق، ماربل یا قیمتی پتھر کا تھا وہ حبشہ سے لائے گئے تھے کیونکہ ایسے پتھروں وغیرہ کی کانیں ادھر، یمن اور حبشہ میں تھیں۔ بعض نے معنیٰ کیے ہیں کہ ا س کا نگینہ سیاہ تھا۔ اس وجہ سے اسے حبش کہا گیا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ نگینہ بھی چاندی ہی کا تھا۔ اس کی بابت یہ بھی کہا گیا ہے کہ مختلف انگوٹھیاں تھیں، اس لیے کسی کا نگینہ چاندی کا تھا اور کسی کا حبشی تھا۔ بعض محققین نے یہ تطبیق دی ہے کہ حبشی نگینہ سونے کی انگوٹھی کا تھا اور چاندی کی انگوٹھی میں نگینہ چاندی ہی کا تھا۔ یہاں راوی کو غلطی لگی جو اس نے حبشی نگینہ چاندی کی انگوٹھی سے منسوب کردیا۔ یہ اما م بیہقی﷫ کا قول ہے۔ واللہ أعلم۔
(5) کندھ تھے رسو ل اللہ ﷺ کے جو خطوط سامنے آئے ہیں ان میں محمد رسول اللہ کے الفاظ کی ترتیب اس طرح سے ہے کہ یہ تینوں الفاظ ایک سطر میں نہیں لکھے گئے بلکہ تین سطروں میں ہیں۔ سب سے اوپر لفظ اللہ  درمیان میں لفظ رسول اور نیچے لفظ محمد ﷺ ہے۔ اس ترتیب سے آپ کا حسن ادب واضح ہوتا ہے کہ آپ نے اپنا نام باوجود ترتیب میں مقدم ہونے کے نیچے رکھا اور لفظ اللہ اوپر۔ فداہ أبي وأمي ونفسي وروحي ﷺ.
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5199   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3641  
´انگوٹھی کے نقش کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اس میں ایک حبشی نگینہ تھا، اور اس میں «محمد رسول الله» کا نقش تھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3641]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحیح بخاری کی روایت میں ہے:
نبی ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی اسی میں سے تھا۔ (صحيح البخاري، اللباس، باب فصّ الخاتم، حديث: 5869)
حافظ ابن حجر  نے حبشی نگینہ کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اس کا ڈیزائن یا نقش حبشى انداز کا تھا۔
اگر اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ وہ حبشہ کے علاقے کا پتھر یا عقیق تھا تو ممکن ہے کہ دو انگوٹھیاں ہوں۔
ایک چاندی کے نگینے والی اور ایک پتھر کے نگینے والی۔
واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 10 /396)

(2)
مرد کے لئے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے۔

(3)
انگوٹھی میں کوئی لفظ یا حرف کندہ کرانا جائز ہے۔

(4)
خلیفہ قاضی یا دوسرے افسران کی مہر کی نقل تیار کرنا منع ہے کیونکہ اس سے جعل سازی اور فریب کا دروازہ کھلتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3641   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1739  
´چاندی کی انگوٹھی کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ (عقیق) حبشہ کا بنا ہوا تھا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1739]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آنے والی انس کی روایت جس میں ذکر ہے کہ نگینہ بھی چاندی کا تھا،
اور باب کی اس روایت میں کوئی تعارض نہیں ہے،
کیوں کہ احتمال ہے کہ آپ کے پاس دوقسم کی انگوٹھیا ں تھیں،
یا یہ کہاجائے کہ نگینہ چاندی کا تھا،
حبشہ کی جانب نسبت کی وجہ یہ ہے کہ حبشی نقش ونگار یا طرز پر بناہواتھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1739   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4214  
´انگوٹھی بنانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض شاہان عجم کو خط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ وہ ایسے خطوط کو جو بغیر مہر کے ہوں نہیں پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس میں «محمد رسول الله» کندہ کرایا۔ [سنن ابي داود/كتاب الخاتم /حدیث: 4214]
فوائد ومسائل:
رسول اللہﷺ کی انگوٹھی محض زینت کے لیئے نہیں تھی، بلکہ بطور مہر استعمال ہوتی تھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4214