سنن نسائي
كتاب الزاينة (من المجتبى) -- کتاب: زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
61. بَابُ : فَرْقِ الشَّعْرِ
باب: بالوں میں مانگ نکالنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5240
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسْدُلُ شَعْرَهُ، وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَفْرُقُونَ شُعُورَهُمْ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ بِشَيْءٍ، ثُمَّ فَرَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بال چھوڑ دیتے تھے اور کفار و مشرکین بالوں میں مانگ نکالتے تھے، آپ ایسے معاملات میں جن میں کوئی حکم نہ ملتا اہل کتاب (یہود و نصاری) کی موافقت پسند فرماتے تھے، پھر اس کے بعد آپ نے بھی مانگ نکالی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 23 (3558)، مناقب الٔلنصار 52 (3944)، اللباس 70 (5917)، صحیح مسلم/الفضائل 24 (2336)، سنن ابی داود/الترجل 10 (4188)، سنن الترمذی/الشمائل3 (29)، سنن ابن ماجہ/اللباس 36 (3632)، (تحفة الأشراف: 5836)، مسند احمد (1/24646، 261، 287، 320) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5240  
´بالوں میں مانگ نکالنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بال چھوڑ دیتے تھے اور کفار و مشرکین بالوں میں مانگ نکالتے تھے، آپ ایسے معاملات میں جن میں کوئی حکم نہ ملتا اہل کتاب (یہود و نصاری) کی موافقت پسند فرماتے تھے، پھر اس کے بعد آپ نے بھی مانگ نکالی۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5240]
اردو حاشہ:
(1) عادات میں جب تک نہی نہ آئے جواز قائم رہتا ہے۔ چونکہ مانگ نکالنے سے نہی وارد نہیں ہوئی لہٰذا مانگ نکالنا جائز ہے اور نہ نکالنا بھی جائز ہے کیونکہ نکالنے کا حکم وارد نہیں۔ آپ سے مانگ نکالنا بھی ثابت ہے اور نہ نکالنا بھی۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کی بابت شریعت نے کوئی مخصوص حکم نہیں دیا۔ حالات کے تحت دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ایسے مسائل میں آپ کا اہل کتاب کی موافقت کرنا ان کی تالیف قلب کے لیے تھا کہ شاید وہ اسلام کی طرف مائل ہو جائیں مگر جب محسوس فرمایا کہ ان کے لیے موافقت بھی مفید نہیں تو آپ نے ان کی موافقت چھوڑ دی۔ رسول اللہ ﷺ کو اہل کتاب کی موافقت اس لیے موافقت بھی مفید نہیں توآپ نے ان کی موافقت چھوڑ دی۔ رسول اللہ ﷺ کو اہل کتاب کی موافقت اس لیے بھی پسند تھی کہ وہ کم از کم دعوے کی حد تک ہی سہی سماوی دین پر عمل پیرا ہونے کے دعویدار تھے۔ اس کے برعکس مشرکین تو پکے بت پرست تھے۔
(2) مانگ سر کے درمیان میں نکالنے چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ درمیان میں مانگ نکالنا ہی تھی۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5240   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3632  
´کان کی لو سے بال نیچے رکھنے اور چوٹیاں رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بالوں کو پیشانی پر لٹکائے رکھتے تھے، اور مشرکین مانگ نکالا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی پیشانی پر بال لٹکائے رکھتے، پھر بعد میں آپ مانگ نکالنے لگے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3632]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
مکہ مکرمہ میں مشرکین کی اکثریت تھی۔
رسول اللہ ﷺ ان سے امتیاز کے لئے اہل کتا ب کا انداز اختیار فرما لیتے تھے۔
جب رسول ﷺ نے ہجرت فرمائی تو مدینہ میں موجود کثیر اہل کتاب سے فرق کرنے کے لئے دوسرا انداز اختیار فرمایا۔

(2)
رسول اللہ ﷺ کا ہر عمل وحی کی روشنی میں ہوتا تھا اس لئے بال مانگ نکالے بغیر کھلے چھوڑنا منسوخ ہے اور مانگ نکالنا مسنون اور ثواب ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3632   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4188  
´بال میں مانگ نکالنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بالوں کا «سدل» کرتے یعنی انہیں لٹکا ہوا چھوڑ دیتے تھے، اور مشرکین اپنے سروں میں مانگ نکالتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن باتوں میں کوئی حکم نہ ملتا اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے اسی لیے آپ اپنی پیشانی کے بالوں کو لٹکا چھوڑ دیتے تھے پھر بعد میں آپ مانگ نکالنے لگے۔ [سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4188]
فوائد ومسائل:
واضح ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا مانگ نکالنا اللہ کے حکم سےتھا، اگرچہ مشرکین بھی نکالا کرتے تھے۔
پس مشرکین اور کفار کی وہی مشابہت نا جائز ہے جو ان کی دینی اور خاص قومی علامت ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4188