سنن نسائي
كتاب الزاينة (من المجتبى) -- کتاب: زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
68. بَابُ : وَصْلِ الشَّعْرِ بِالْخِرَقِ
باب: چیتھڑے سے بال جوڑنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5249
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، أَنَّهُ قَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ , إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَاكُمْ عَنِ الزُّورِ" , قَالَ: وَجَاءَ بِخِرْقَةٍ سَوْدَاءَ فَأَلْقَاهَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ، فَقَالَ: هُوَ هَذَا تَجْعَلُهُ الْمَرْأَةُ فِي رَأْسِهَا، ثُمَّ تَخْتَمِرُ عَلَيْهِ".
معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: لوگو! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں جھوٹ اور فریب سے روکا ہے، راوی (ابن المسیب) کہتے ہیں: اور انہوں نے ایک کالا چیتھڑا نکالا پھر اسے ان کے سامنے رکھ دیا اور کہا: یہی ہے وہ (یعنی جھوٹ اور فریب کاری)، اسے عورت اپنے سر میں لگا کر دوپٹا اوڑھ لیتی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 5095 (صحیح الإسناد)»

وضاحت: ۱؎: اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس عورت کے اپنے اصلی بال بڑے لمبے لمبے ہیں، اور لمبے بال عورتوں کی خوبصورتی میں شمار ہوتے ہیں، تو گویا غیر خوبصورت عورت خود کو مصنوعی ذریعے سے خوبصورت ظاہر کر کے اس کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، یہ عمل اسلام کی نظر میں ناپسندیدہ ہے کیونکہ یہ دھوکا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5249  
´چیتھڑے سے بال جوڑنے کا بیان۔`
معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: لوگو! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں جھوٹ اور فریب سے روکا ہے، راوی (ابن المسیب) کہتے ہیں: اور انہوں نے ایک کالا چیتھڑا نکالا پھر اسے ان کے سامنے رکھ دیا اور کہا: یہی ہے وہ (یعنی جھوٹ اور فریب کاری)، اسے عورت اپنے سر میں لگا کر دوپٹا اوڑھ لیتی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5249]
اردو حاشہ:
(1) خرق اس کا مفرد خرقۃ ہے، یعنی دھجی (کپڑے کی لمبی پٹی)۔
(2) اوڑھ لیتی ہے تاکہ جعل سازی کا پتا نہ چلے اور بال زیادہ محسوس ہوں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بالوں میں کسی چیز کا اضافہ درست نہیں خواہ دوسری چیز بال ہوں یا کپڑے کے ٹکڑے جن سے کسی کو بالوں کی کثرت کا دھوکا دیا جاسکے۔ البتہ بالوں کو قابو کرنے کے لیے دھاگے وغیرہ کا پراندہ استعمال کیا جاسکتا ہے خواہ وہ سیاہ ہی ہو کیونکہ اس سے دھوکا دہی نہیں ہوتی۔ وہ سر پر نہیں ہوتا کہ کثرت کا گمان ہو بلکہ وہ پشت پر لٹکتا ہے نیز اسے دیکھنے سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ بال نہیں دھاگا ہے۔
(3) اس حدیث کا ترجمہ ایک اورانداز سے بھی ممکن ہے کہ آپ سیاہ رنگ کا کپڑا لائے اور لوگوں کے سامنے پھینکا اور فرمایا: اسے عورت اپنے بالوں میں لگا سکتی ہے۔ اوپر سے اوڑھنی او‎ڑھ لے۔ اس صورت میں سیاہ رنگ کے کپڑے سے مراد پراندہ ہی ہے کہ اس کا استعمل جائز ہے۔ حدیث کا مقصد یہ ہو گا کہ جعلی بال ملانے درست نہیں کیونکہ ان سے دھوکا دہی ہوتی ہے۔ البتہ کپڑا یا پراندہ وغیرہ لگا لیا جائے تاکہ بال منتشر نہ ہوں اور انہیں اس کے ساتھ باندھ لیا جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ کپڑے کے ساتھ جعل سازی ممکن نہیں۔ وہ دور ہی سے بالوں سے مختلف نظر آتا ہے اور اس کا مقصد بھی سمجھ میں آتا ہے۔ پہلا ترجمہ الفاظ کے زیادہ قریب ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5249