سنن نسائي
كتاب آداب القضاة -- کتاب: قاضیوں اور قضا کے آداب و احکام اور مسائل
29. بَابُ : مَنْعِ الْحَاكِمِ رَعِيَّتَهُ مِنْ إِتْلاَفِ أَمْوَالِهِمْ وَبِهِمْ حَاجَةٌ إِلَيْهَا
باب: اگر کسی شخص کو مال کی حاجت ہو اور وہ اپنا مال برباد کرے تو حاکم اس کو اس کام سے روک سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 5420
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ وَاصِلِ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَاضِرُ بْنُ الْمُوَرِّعِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَعْتَقَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ غُلَامًا لَهُ عَنْ دُبُرٍ وَكَانَ مُحْتَاجًا , وَكَانَ عَلَيْهِ دَينٍ , فَبَاعهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَمَانِ مِائَةِ دِرْهَمٍ فَأَعْطَاهُ، فَقَالَ:" اقْضِ دَيْنَكَ وَأَنْفِقْ عَلَى عِيَالِكَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انصار کے ایک شخص نے مدابرہ کے طور پر اپنا ایک غلام آزاد کر دیا، حالانکہ وہ ضرورت مند تھا اور اس پر قرض بھی تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آٹھ سو درہم میں بیچ کر مال اسے دے دیا اور فرمایا: اپنا قرض ادا کرو اور اپنے بال بچوں پر خرچ کرو۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4658 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: مدابرہ یہ کہنا کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5420  
´اگر کسی شخص کو مال کی حاجت ہو اور وہ اپنا مال برباد کرے تو حاکم اس کو اس کام سے روک سکتا ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انصار کے ایک شخص نے مدابرہ کے طور پر اپنا ایک غلام آزاد کر دیا، حالانکہ وہ ضرورت مند تھا اور اس پر قرض بھی تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آٹھ سو درہم میں بیچ کر مال اسے دے دیا اور فرمایا: اپنا قرض ادا کرو اور اپنے بال بچوں پر خرچ کرو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5420]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمتہ اللہ نے اس مقام پر جوعنوان قائم کیا ہے اس سے ان کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ حاکم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ محتاجوں اورضرورت مندوں کوان کے مال بیچنے یا اس طرح خیرات کرنے سے جیسا کہ مذکورہ صحابی نےکیا تھا روک دے نیز اسے یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ مالکان کے تصرف کو کالعدم قراردے کر خود ان کےمالوں میں تصرف کرے۔
(2) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ عام صدقہ خیرات کرنے سے ادائیگی قرض مقدم ہے کیونکہ عام صدقہ خیرات کرنا نفلی عبادت ہے جبکہ قرض کی ادائیگی فرض ہے۔ اگر نفلی عبادت نہیں کی جائے گی توزیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ اجروثواب نہیں ملے گا‘ بازپرس تو نہیں ہوگی جبکہ قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں توجواب دہی کےساتھ ساتھ بازپرس بھی ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نےایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار فرما دیا تھا جس کے ذمے قرض تھا اور ادائیگی کے لیے کچھ نہیں تھا۔
(3) مدبر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس سے کہہ دیا کہ تومیرے مرنے کے بعد آزاد ہو گا۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺغلام کونہ بیچتے تووہ اس انصاری کےمرنے کے بعد آزاد ہوجاتا‘ اس لیے آپ نے اسے بیچ دیا۔ معلوم ہوا صدقہ وہی صحیح ہے جو اپنی حاجت پوری کرنے اورقرض وغیرہ کی ادائیگی کےبعد ہو ورنہ صدقہ رد کردیا جائے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5420