سنن نسائي
كتاب الاستعاذة -- کتاب: استعاذہ (بری چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگنے) کے آداب و احکام
13. بَابُ : الاِسْتِعَاذَةِ مِنَ الْعَجْزِ
باب: عاجزی اور مجبوری سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5460
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَاضِرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: لَا أُعَلِّمُكُمْ إِلَّا مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا، يَقُولُ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ، وَالْهَرَمِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ، اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا، وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا، أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَعِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، وَدَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا".
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں تمہیں وہی سکھاتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سکھاتے تھے، آپ فرماتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من العجز والكسل والبخل والجبن والهرم وعذاب القبر اللہم آت نفسي تقواها وزكها أنت خير من زكاها أنت وليها ومولاها اللہم إني أعوذ بك من قلب لا يخشع ومن نفس لا تشبع وعلم لا ينفع ودعوة لا يستجاب لها» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، عاجزی و مجبوری اور بے بسی سے، کاہلی سے، بخیلی و کنجوسی سے، بزدلی و کم ہمتی سے، بڑھاپے سے، قبر کے عذاب سے، اللہ! تو میرے نفس کو تقویٰ عطا کر، اسے (برائیوں سے) پاک کر دے، تو ہی بہترین پاک کرنے والا ہے، تو ہی اس کا مالک اور سر پرست ہے، اے اللہ! میں ایسے دل سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس میں تیرا ڈر نہ ہو، ایسے نفس سے جو سیراب نہ ہو، ایسے علم سے جو نفع بخش اور مفید نہ ہو، اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو سکے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الذکر 18 (2722)، (تحفة الأشراف: 3668)، مسند احمد (4/371)، ویأتي عند المؤلف برقم 5540 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5460  
´عاجزی اور مجبوری سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں تمہیں وہی سکھاتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سکھاتے تھے، آپ فرماتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من العجز والكسل والبخل والجبن والهرم وعذاب القبر اللہم آت نفسي تقواها وزكها أنت خير من زكاها أنت وليها ومولاها اللہم إني أعوذ بك من قلب لا يخشع ومن نفس لا تشبع وعلم لا ينفع ودعوة لا يستجاب لها» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، عاجزی و مجبوری اور بے بسی سے، کاہلی سے، بخیلی و کنجوسی سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5460]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث: 5444
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5460   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3484  
´بعض چیزوں سے پناہ طلب کرنے کا باب۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر و بیشتر ان الفاظ سے دعا مانگتے سنتا تھا: «اللهم إني أعوذ بك من الهم والحزن والعجز والكسل والبخل وضلع الدين وغلبة الرجال» اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکرو غم سے، عاجزی سے اور کاہلی سے اور بخیلی سے اور قرض کے غلبہ سے اور لوگوں کے قہر و ظلم و زیادتی سے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3484]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر وغم سے،
عاجزی سے اور کاہلی سے اور بخیلی سے اور قرض کے غلبہ سے اور لوگوں کے قہر وظلم وزیادتی سے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3484   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1540  
´(بری باتوں سے اللہ کی) پناہ مانگنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من العجز، والكسل، والجبن، والبخل، والهرم، وأعوذ بك من عذاب القبر، وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی سے، سستی سے، بزدلی سے، بخل اور کنجوسی سے اور انتہائی بڑھاپے سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں عذاب قبر سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنوں سے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1540]
1540. اردو حاشیہ: دین و دنیا کی بھلائیوں کے حصول میں محرومی تین اسباب سے ہوتی ہے کہ انسان میں ان کے کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی ‘یاسستی غالب آ جاتی ہے ‘ یا جرات کا فقدان ہوتا ہے۔ «بخل» ‏‏‏‏ سےمراد وہ کیفیت ہے کہ جہاں خرچ کرنا مشروع و مستحب ہو ‘ لیکن انسان وہاں خرچ نہ کرے۔ «ھرم» ‏‏‏‏ بڑی عمر ہونے کی یہ حالت کہ انسان دوسروں پر بوجھ بن جائے۔نہ عبادت کر سکے اور نہ دنیا کا کام۔زندگی کے فتنے یہ کہ آزمائشیں اورپریشانیاں غالب آ جائیں ‘ نیکی کا کاموں سے محروم رہے۔موت کا فتنہ یہ کہ انسان اعمال خیر سے محروم رہ جائے یا مرتے دم کلمہ توحید نصیب نہ ہو۔ اور قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے اس میں بندہ اگر پھسل یا پھنس گیا تو بہت بڑی ہلاکت ہے اور عذاب قبر سے تعوذ ‘امت کے لیے تعلیم ہے ورنہ انبیائے کرام علیہم السلام اس سے محفوظ ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1540