سنن نسائي
كتاب الاستعاذة -- کتاب: استعاذہ (بری چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگنے) کے آداب و احکام
14. بَابُ : الاِسْتِعَاذَةِ مِنَ الذِّلَّةِ
باب: ذلت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5462
أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَبَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفَقْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْقِلَّةِ وَالذِّلَّةِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ". خَالَفَهُ الْأَوْزَاعِيُّ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من الفقر وأعوذ بك من القلة والذلة وأعوذ بك أن أظلم أو أظلم» اے اللہ! میں فقر و غربت سے تیری پناہ مانگتا ہوں، کمی اور ذلت سے پناہ مانگتا ہوں، ظلم کرنے اور ظلم کیے جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں) اوزاعی نے حماد کی مخالفت کی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 367 (1544)، (تحفة الأشراف: 13385)، مسند احمد (2/305، 325، 254)، ویأتي عند المؤلف برقم: 5464 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی دونوں کی روایتوں میں اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ کے شیخ مختلف ہیں، کیونکہ حماد کی روایت میں سعید بن یسار ہیں جب کہ اوزاعی کی روایت میں ان کے شیخ جعفر بن عیاض ہیں، (جو ضعیف ہیں) نیز ان دونوں کے الفاظ بھی مختلف ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5462  
´ذلت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من الفقر وأعوذ بك من القلة والذلة وأعوذ بك أن أظلم أو أظلم» اے اللہ! میں فقر و غربت سے تیری پناہ مانگتا ہوں، کمی اور ذلت سے پناہ مانگتا ہوں، ظلم کرنے اور ظلم کیے جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‏‏‏‏ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں) اوزاعی نے حماد کی مخالفت کی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5462]
اردو حاشہ:
اوزاعی نے اس حدیث کے بیان کرنے میں حماد بن سلمہ کی مخالفت کی ہے اور وہ اس طرح کہ حماد بن سلمہ نے اسحاق بن عبد اللہ سے بیان کرتے ہوئے کہا ہے:عن سعید بن یسار عن أبي هریرة جبکہ اوزاعی نے اسحاق بن عبد اللہ سے بیان کیا ہے تو کہا ہے: حدثني جعفر بن عیاض‘ قال حدثني أبي هریرة‘یعنی اوزاعی نے سعید بن یسار کی بجائے جعفر بن عیاض کہا ہے۔ واللہ أعلم
(1) سنن ابوداؤد مترجم‘ مطبوعہ دارالسلام‘ حدیث:1544 کے فائدے میں ابو عمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ رقم طراز ہیں کہ فقر دو طرح سے ہوتا ہے: مال کا یا دل کا۔ انسان کے پاس مال نہ ہو مگر دل کا غنی اور سیر چشم ہو تو یہ ممدوح ہے مگر اس کے بر عکس انسان حرص کا مریض ہو تو یہ بہت ہی قبیح خصلت ہے‘ نیز فقیری اور غریبی کی کیفیت کہ انسان ضروریات زندگی کے حصول سے محروم اور عاجز ہو کر لازمی واجبات کی ادا نہ کر سکے‘ اس سے رسول اللہ ﷺ نے پناہ مانگی ہے۔ قلت سے مراد اعمال خیر اور ان کے اسباب کی قلت ہے اور ذلت یہ کہ انسان عصیان (اللہ تعالی ٰ نافرمانی) کا مرتکب ہو کر اللہ کے سامنے رسوا ہو جائے یا لوگوں کی نظروں میں اس کا وقار نہ رہے کہ اس کی دعوت ہی نہ سنی جائے۔اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسی طرح انسان کا اپنے معاشرے میں ظالم بن جانا یا مظلوم بن جانا‘ کوئی بھی صورت ممدوح نہیں۔
(2) فقر سے مراد وہ فقر بھی ہو سکتا ہے جس سے کفر اور گمراہی کا خطرہ ہو کیونکہ عوام الناس کے لیے فقر گمراہی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کے لیے مالی فقر ایک نعمت ہے۔ آپ کی دعائیں دراصل امت کے لیے تعلیم ہیں۔ یا فقر سے مراد جسے انسان برداشت نہ کر سکے اور دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہو جاۓ۔ فقر سے فقرقلب بھی مراد ہو سکتا ہے جیسا کہ گزشتہ سطور میں ذکر ہوا۔
(3) قلت سے مراد افراد بھی ہو سکتی ہے اور قلت مال بھی جسے اوپر فقر کہا گیا ہے ورنہ کثرت مال تو بسا اوقات گمراہی کا سبب بن جاتی ہے۔ ذلت سے مراد لوگوں کا غلبہ ہے کہ آدمی اپنا حق بھی حاصل نہ کر سکے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ‘حدیث:5451۔
(4) اس حدیث میں ہر بعد والا لفظ پہلے کا نتیجہ ہے۔ فقر سے قلت پیدا ہوتی ہے‘ قلت ذلت کو جنم دیتی ہے اور ذلت انسان کو مظلوم بنا دیتی ہے۔ یا وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے اصول پر ظالم ڈاکو بن جاتا ہے۔ نعوذ بالله من ذلك
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5462   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3842  
´جن چیزوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ چاہی ہے ان کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے فقیری، مال کی کمی، ذلت، ظلم کرنے اور ظلم کئے جانے سے پناہ مانگو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3842]
اردو حاشہ:
فوائد  ومسائل:
ان چیزوں سے پناہ مانگنے کےلیے اس طرح دعا کریں:
«اللّهُمَّ إنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْفَقْرِ، وَالْقِلَّةِ، وَالذِّلَّةِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أَظْلِمَ أو أُظْلَمَ»
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3842   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3842  
´جن چیزوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ چاہی ہے ان کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے فقیری، مال کی کمی، ذلت، ظلم کرنے اور ظلم کئے جانے سے پناہ مانگو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3842]
اردو حاشہ:
فوائد  ومسائل:
ان چیزوں سے پناہ مانگنے کےلیے اس طرح دعا کریں:
«اللّهُمَّ إنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْفَقْرِ، وَالْقِلَّةِ، وَالذِّلَّةِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أَظْلِمَ أو أُظْلَمَ»
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3842   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3484  
´بعض چیزوں سے پناہ طلب کرنے کا باب۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر و بیشتر ان الفاظ سے دعا مانگتے سنتا تھا: «اللهم إني أعوذ بك من الهم والحزن والعجز والكسل والبخل وضلع الدين وغلبة الرجال» اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکرو غم سے، عاجزی سے اور کاہلی سے اور بخیلی سے اور قرض کے غلبہ سے اور لوگوں کے قہر و ظلم و زیادتی سے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3484]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر وغم سے،
عاجزی سے اور کاہلی سے اور بخیلی سے اور قرض کے غلبہ سے اور لوگوں کے قہر وظلم وزیادتی سے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3484   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1540  
´(بری باتوں سے اللہ کی) پناہ مانگنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من العجز، والكسل، والجبن، والبخل، والهرم، وأعوذ بك من عذاب القبر، وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی سے، سستی سے، بزدلی سے، بخل اور کنجوسی سے اور انتہائی بڑھاپے سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں عذاب قبر سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنوں سے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1540]
1540. اردو حاشیہ: دین و دنیا کی بھلائیوں کے حصول میں محرومی تین اسباب سے ہوتی ہے کہ انسان میں ان کے کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی ‘یاسستی غالب آ جاتی ہے ‘ یا جرات کا فقدان ہوتا ہے۔ «بخل» ‏‏‏‏ سےمراد وہ کیفیت ہے کہ جہاں خرچ کرنا مشروع و مستحب ہو ‘ لیکن انسان وہاں خرچ نہ کرے۔ «ھرم» ‏‏‏‏ بڑی عمر ہونے کی یہ حالت کہ انسان دوسروں پر بوجھ بن جائے۔نہ عبادت کر سکے اور نہ دنیا کا کام۔زندگی کے فتنے یہ کہ آزمائشیں اورپریشانیاں غالب آ جائیں ‘ نیکی کا کاموں سے محروم رہے۔موت کا فتنہ یہ کہ انسان اعمال خیر سے محروم رہ جائے یا مرتے دم کلمہ توحید نصیب نہ ہو۔ اور قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے اس میں بندہ اگر پھسل یا پھنس گیا تو بہت بڑی ہلاکت ہے اور عذاب قبر سے تعوذ ‘امت کے لیے تعلیم ہے ورنہ انبیائے کرام علیہم السلام اس سے محفوظ ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1540   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1544  
´(بری باتوں سے اللہ کی) پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من الفقر، والقلة، والذلة، وأعوذ بك من أن أظلم أو أظلم» اے اللہ! میں فقر، قلت مال اور ذلت سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میں کسی پر ظلم کروں یا کوئی مجھ پر ظلم کرے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1544]
1544. اردو حاشیہ: فقر دو طرح سے ہوتا ہے، مال کا یا دل کا۔ انسان کے پاس مال نہ ہو مگر دل غنی اور سیر چشم ہو تو یہ ممدوح ہے مگر اس کے برعکس انسان حرص کا مریض ہو یہ تو بہت ہی قبیح خصلت ہے۔ نیز فقیری اور غریبی کی یہ کیفیت کہ انسان ضروریات زندگی کے حصول سے محروم اور عاجز ہو کہ لازمی واجبات بھی ادا نہ کرسکے۔ اس سے رسول اللہ ﷺ نے پناہ مانگی ہے۔ قلت سے مراد اعمال خیر اور ان کے اسباب کی قلت ہے اور ذلت یہ کہ انسان عصیان کا مرتکب ہو کر اللہ کے سامنے رسوا ہو جائے یا لوگوں کی نظروں میں اس کا وقار نہ رہے کہ اس کی دعوت ہی نہ سنی جائے۔ اس سے اللہ کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسی طرح انسان کا اپنے معاشرے میں ظالم بن جانا یا مظلوم بن جانا کوئی بھی صورت ممدوح نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1544   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1544  
´(بری باتوں سے اللہ کی) پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من الفقر، والقلة، والذلة، وأعوذ بك من أن أظلم أو أظلم» اے اللہ! میں فقر، قلت مال اور ذلت سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میں کسی پر ظلم کروں یا کوئی مجھ پر ظلم کرے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1544]
1544. اردو حاشیہ: فقر دو طرح سے ہوتا ہے، مال کا یا دل کا۔ انسان کے پاس مال نہ ہو مگر دل غنی اور سیر چشم ہو تو یہ ممدوح ہے مگر اس کے برعکس انسان حرص کا مریض ہو یہ تو بہت ہی قبیح خصلت ہے۔ نیز فقیری اور غریبی کی یہ کیفیت کہ انسان ضروریات زندگی کے حصول سے محروم اور عاجز ہو کہ لازمی واجبات بھی ادا نہ کرسکے۔ اس سے رسول اللہ ﷺ نے پناہ مانگی ہے۔ قلت سے مراد اعمال خیر اور ان کے اسباب کی قلت ہے اور ذلت یہ کہ انسان عصیان کا مرتکب ہو کر اللہ کے سامنے رسوا ہو جائے یا لوگوں کی نظروں میں اس کا وقار نہ رہے کہ اس کی دعوت ہی نہ سنی جائے۔ اس سے اللہ کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسی طرح انسان کا اپنے معاشرے میں ظالم بن جانا یا مظلوم بن جانا کوئی بھی صورت ممدوح نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1544