صحيح البخاري
كِتَاب الشَّهَادَاتِ -- کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
13. بَابُ شَهَادَةِ الإِمَاءِ وَالْعَبِيدِ:
باب: باندیوں اور غلاموں کی گواہی کا بیان۔
وَقَالَ أَنَسٌ: شَهَادَةُ الْعَبْدِ جَائِزَةٌ إِذَا كَانَ عَدْلًا، وَأَجَازَهُ شُرَيْحٌ، وَزُرَارَةُ بْنُ أَوْفَى، وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ: شَهَادَتُهُ جَائِزَةٌ إِلَّا الْعَبْدَ لِسَيِّدِهِ، وَأَجَازَهُ الْحَسَنُ، وَإِبْرَاهِيمُ فِي الشَّيْءِ التَّافِهِ، وَقَالَ شُرَيْحٌ: كُلُّكُمْ بَنُو عَبِيدٍ وَإِمَاءٍ.
اور انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ غلام اگر عادل ہے تو اس کی گواہی جائز ہے، شریح اور زرارہ بن اوفی نے بھی اسے جائز قرار دیا ہے۔ ابن سیرین نے کہا کہ اس کی گواہی جائز ہے، سوا اس صورت کے جب غلام اپنے مالک کے حق میں گواہی دے (کیونکہ اس میں مالک کی طرف داری کا احتمال ہے) حسن اور ابراہیم نے معمولی چیزوں میں غلام کی گواہی کی اجازت دی ہے۔ قاضی شریح نے کہا کہ تم میں سے ہر شخص غلاموں اور باندیوں کی اولاد ہے۔
حدیث نمبر: 2659
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ. ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ، أَوْ سَمِعْتُهُ مِنْهُ" أَنَّهُ تَزَوَّجَ أُمَّ يَحْيَى بِنْتَ أَبِي إِهَابٍ، قَالَ: فَجَاءَتْ أَمَةٌ سَوْدَاءُ، فَقَالَتْ: قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْرَضَ عَنِّي، قَالَ: فَتَنَحَّيْتُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ: وَكَيْفَ وَقَدْ زَعَمَتْ أَنْ قَدْ أَرْضَعَتْكُمَا، فَنَهَاهُ عَنْهَا".
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے، وہ ابن بی ملیکہ سے، ان سے عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا کہ میں نے ابن ابی ملیکہ سے سنا، کہا کہ مجھ سے عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، یا (یہ کہا کہ) میں نے یہ حدیث ان سے سنی کہ انہوں نے ام یحیی بنت ابی اہاب سے شادی کی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ایک سیاہ رنگ والی باندی آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف سے منہ پھیر لیا پس میں جدا ہو گیا۔ میں نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جا کر اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اب (نکاح) کیسے (باقی رہ سکتا ہے) جبکہ تمہیں اس عورت نے بتا دیا ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ام یحییٰ کو اپنے ساتھ رکھنے سے منع فرما دیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 88  
´جب شبہ پیدا ہو گیا تو اب شبہ کی چیز سے بچنا ہی بہتر ہے`
«. . . عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ،" أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لِأَبِي إِهَابِ بْنِ عَزِيزٍ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ وَالَّتِي تَزَوَّجَ، فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ: مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ أَرْضَعْتِنِي وَلَا أَخْبَرْتِنِي . . .»
. . . عقبہ نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ کو اور جس سے اس کا نکاح ہوا ہے، اس کو دودھ پلایا ہے۔ (یہ سن کر) عقبہ نے کہا، مجھے نہیں معلوم کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ تب عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 88]

تشریح:
عقبہ بن حارث نے احتیاطاً اسے چھوڑ دیا کیونکہ جب شبہ پیدا ہو گیا تو اب شبہ کی چیز سے بچنا ہی بہتر ہے۔ مسئلہ معلوم کرنے کے لیے حضرت عقبہ کا سفر کر کے مدینہ جانا ترجمۃ الباب کا یہی مقصد ہے۔ اسی بنا پر محدثین نے طلب حدیث کے سلسلہ میں جو جو سفر کئے ہیں وہ طلب علم کے لیے بے مثال سفر ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً عقبہ کی جدائی کرا دی۔ اس سے ثابت ہوا کہ احتیاط کا پہلو بہرحال مقدم رکھنا چاہئیے یہ بھی ثابت ہوا کہ رضاع صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت ہو جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 88   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2659  
2659. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے ام یحییٰ بنت ابواہاب سے شادی کرلی تو ایک سیاہ فام لونڈی آئی اور کہنے لگی: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ میں نے جب نبی کریم ﷺ سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ نے اپنا رخ دوسری طرف پھیرلیا، چنانچہ میں بھی اس طرف سے ہٹ گیا۔ پھر میں نے دوبارہ آپ سے اسی بات کاذکر کیا تو آپ نے فرمایا: اب یہ کیسے ہوسکتاہے جبکہ اس عورت کا دعویٰ ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایاہے؟ پھرآپ نے حضرت عقبہ ؓ کو اس رشتے سے روک دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2659]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ذکر ہے کہ ایک لونڈی کی شہادت آنحضرت ﷺ نے قبول فرمائی اور اس کی بنا پر ایک صحابی عقبہ بن حارث ؓ اور ان کی عورت میں جدائی کرادی، معلوم ہوا کہ لونڈی غلاموں کی شہادت قبول کی جاسکتی ہے، جو لوگ اس کے خلاف کہتے ہیں ان کا قول درست نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2659   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 973  
´دودھ پلانے کا بیان`
سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ام یحییٰ بنت ابی اھاب رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا تو ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ عقبہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب تم اسے کس طرح اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہو جبکہ رضاعت کی اطلاع دے دی گئی ہے۔ چنانچہ عقبہ نے اس عورت کو جدا کر دیا اور اس خاتون نے دوسرے آدمی سے نکاح کر لیا۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 973»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب شهادة المرضعة، حديث:5104.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابوسروعہ‘ (سین کے نیچے کسرہ‘ را ساکن اور واؤ پر فتحہ ہے۔
)
عقبہ بن حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف مکی۔
مشہور صحابی ہیں۔
فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہونے والوں میں سے ہیں۔
پچاس ہجری کے بعد تک زندہ رہے۔
وضاحت: «ام یحییٰ» ان کا نام غَنِیَّہ ہے۔
(غین پر فتحہ نون کے نیچے کسرہ اور یا پر تشدیدہے۔
)
غنیہ بنت ابی اہاب بن عویر تمیمی۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا نام زینب تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 973   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1151  
´رضاعت کے سلسلہ میں ایک عورت کی گواہی کا بیان۔`
عقبہ بن حارث رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی تو ایک کالی کلوٹی عورت نے ہمارے پاس آ کر کہا: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا کہ میں نے فلاں کی بیٹی فلاں سے شادی کی ہے، اب ایک کالی کلوٹی عورت نے آ کر کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، وہ جھوٹ کہہ رہی ہے۔ آپ نے اپنا چہرہ مجھ سے پھیر لیا تو میں آپ کے چہرے کی طرف سے آیا، آپ نے (پھر) اپنا چہرہ پھیر لیا۔ میں نے عرض کیا: وہ جھوٹی ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ وہ کہہ چکی ہے کہ اس نے تم دونوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1151]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے ایک مرضعہ کی گواہی کافی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1151   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3603  
´رضاعت (دودھ پلانے) کی گواہی کا بیان۔`
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عقبہ بن حارث نے اور میرے ایک دوست نے انہیں کے واسطہ سے بیان کیا اور مجھے اپنے دوست کی روایت زیادہ یاد ہے وہ (عقبہ) کہتے ہیں: میں نے ام یحییٰ بنت ابی اہاب سے شادی کی، پھر ہمارے پاس ایک کالی عورت آ کر بولی: میں نے تم دونوں (میاں، بیوی) کو دودھ پلایا ہے ۱؎، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے چہرہ پھیر لیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ عورت جھوٹی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا معلوم؟ اسے جو کہنا تھا اس نے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3603]
فوائد ومسائل:
فائدہ: رضاعت کے مسئلے میں بالخصوص اکیلی عورت کی گواہی اور خبر معتبر اورکافی ہے۔
جیسے کہ پیدائش کے وقت بچے کے زندہ ہونے کے بارے میں ایک دایہ کی گواہی معتبر اور کافی ہوتی ہے۔
تاہم خبر یا گواہی دینے والی کا معتمد اور موثوق ہونا شرط ہے۔
علمائے کرام نے خبر اور گواہی میں فرق کیا ہے۔
گواہی ہمیشہ حاکم اور قاضی کے روبرو ہوتی ہے۔
اس وجہ سے ان مسائل کی تفصیلات میں مختلف ہائے نظر موجود ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3603   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2659  
2659. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے ام یحییٰ بنت ابواہاب سے شادی کرلی تو ایک سیاہ فام لونڈی آئی اور کہنے لگی: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ میں نے جب نبی کریم ﷺ سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ نے اپنا رخ دوسری طرف پھیرلیا، چنانچہ میں بھی اس طرف سے ہٹ گیا۔ پھر میں نے دوبارہ آپ سے اسی بات کاذکر کیا تو آپ نے فرمایا: اب یہ کیسے ہوسکتاہے جبکہ اس عورت کا دعویٰ ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایاہے؟ پھرآپ نے حضرت عقبہ ؓ کو اس رشتے سے روک دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2659]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے ایک لونڈی کی گواہی قبول فرمائی، پھر اس گواہی کی بنیاد پر حضرت عقبہ بن حارث ؓ اور اس کی بیوی ام یحییٰ کے درمیان علیحدگی کرا دی۔
معلوم ہوا کہ اگر لونڈی کی گواہی قابل قبول نہ ہوتی تو اس پر عمل نہ کیا جاتا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2659