سنن نسائي
كتاب الأشربة -- کتاب: مشروبات (پینے والی چیزوں) کے احکام و مسائل
41. بَابُ : مَنْزِلَةِ الْخَمْرِ
باب: شراب کی حیثیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5660
أَخْبَرَنَا سُوَيْدٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ بِقَدَحَيْنِ مِنْ خَمْرٍ، وَلَبَنٍ فَنَظَرَ إِلَيْهِمَا، فَأَخَذَ اللَّبَنَ , فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام:الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَاكَ لِلْفِطْرَةِ، لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ «اسراء» (معراج) کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شراب اور دودھ کے دو پیالے لائے گئے، آپ نے انہیں دیکھا تو دودھ لے لیا، جبرائیل علیہ السلام نے کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے آپ کو فطری چیز کی ہدایت دی، اگر آپ شراب لے لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة الٕنسراء 3 (4709)، الأشربة 1 (5576)، 12 (5603)، صحیح مسلم/الإیمان 74 (168)، (تحفة الأشراف: 13323)، مسند احمد (2/512) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5660  
´شراب کی حیثیت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ «اسراء» (معراج) کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شراب اور دودھ کے دو پیالے لائے گئے، آپ نے انہیں دیکھا تو دودھ لے لیا، جبرائیل علیہ السلام نے کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے آپ کو فطری چیز کی ہدایت دی، اگر آپ شراب لے لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5660]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شراب بہت بری اور گندی چیز ہے کیونکہ یہ گمراہی کا بہت بڑا سبب ہے تو جو چیز دین سے دور کرنے والی اور گمراہی کا سبب ہو اس کے گندا ہونے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے۔
(2) جس رات یہ مکی زندگی کے آخری دور کی بات ہے۔ گویا معراج کے وقت ہی آپ کو اشارہ فرما دیا گیا کہ شراب حرام ہوگی اگرچہ حرمت کا حکم اپنے مقررہ وقت پر اتر ا، یعنی 3 ہجری میں۔
(3) دودھ پکڑ لیا گویا آپ پہلے سے شراب جیسی قبیح چیز سے نفرت فرماتے تھے اور کوئی عاقل اورسنجیدہ شخص عقل کو مغلوب کرنے والی چیز کو بخوبی پسند نہیں کر سکتا۔ بعض روایا ت میں ہے کہ آپ نے اس وقت حضرت جبریل علیہ السلام سے بھی آنکھوں آنکھوں میں مشورہ فرمایا۔ انھوں نے بھی دودھ ہی کی طرف اشارہ کیا۔
(4) اللہ کا شکر ہے کیو نکہ شراب قبول کرنے کی صورت میں شراب حلال رہتی اور حرمت کا حکم نہ آتا۔ گویا یہ پیشکش اور آپ کی قبولیت دراصل اظہار تھا اس بات کا کہ اسلام دین فطرت ہے اور اس میں کوئی حکم خلاف فطرت نہیں آ سکتا۔جو شخص اصل فطرت انسانیہ پر قائم ہے، وہ مسلمان ہے۔ دین اسلام، فطرت انسانیہ ہی کی تفصیل ہے۔
(5) فطری چیز کیونکہ دودھ انسان کی بہترین خوراک ہے۔ ابتدا میں بچے کو سوائے دودھ کے کوئی خوراک مفید ہی نہیں اور بعد میں دودھ واحد مشروب ہے جو کھانے اور پینے دونوں کی جگہ کفایت کر سکتا ہے اور بہت سی بیماریوں سے بچاؤ کرتا ہے۔
(6) گمراہ ہو جاتی اور یہ کو ئی بعید بات نہیں۔ شراب پینے والی سب قومیں گمراہ ہوئیں اور رہی ہیں۔ مغلوب العقل شخص کیسے صحیح فیصلہ کر سکتا ہے؟ ایسے لوگوں سے حکومتیں چھن جاتی ہے اور وہ در بدر کی ٹھوکر یں کھاتے پھرتے ہیں۔ اگر پوری قوم ہی شرابی ہو تو نتائج اس سےبھی زیادہ ہولناک ہوتے ہیں اور قوم من حیث المجموع گمراہ وتباہ ہو جاتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5660