صحيح البخاري
كِتَاب الشَّهَادَاتِ -- کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
25. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلاً} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ آل عمران میں) فرمان کہ ”جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے ذریعہ تھوڑی قیمت حاصل کرتے ہیں“۔
حدیث نمبر: 2676
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ كَاذِبًا لِيَقْتَطِعَ مَالَ رَجُلٍ أَوْ قَالَ أَخِيهِ لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ"، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِيقَ ذَلِكَ فِي الْقُرْآنِ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا سورة آل عمران آية 77. فَلَقِيَنِي الْأَشْعَثُ، فَقَالَ: مَا حَدَّثَكُمْ عَبْدُ اللَّهِ الْيَوْمَ قُلْتُ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فِيَّ أُنْزِلَتْ.
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا شعبہ سے، ان سے سلیمان نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جھوٹی قسم اس لیے کھائے کہ اس کے ذریعہ کسی کا مال لے سکے، یا انہوں نے یوں بیان کیا کہ اپنے بھائی کا مال لے سکے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضب ناک ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی کہ «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا‏» جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی (جھوٹی) قسموں کے ذریعہ معمولی پونجی حاصل کرتے ہیں۔ الخ پھر مجھ سے اشعث رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آج تم لوگوں سے کیا حدیث بیان کی تھی۔ میں نے ان سے بیان کر دی تو آپ نے فرمایا کہ یہ آیت میرے ہی واقعے کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2676  
2676. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کر تے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس شخص نے جھوٹی قسم اٹھائی تاکہ اس کے ذریعے سے کسی آدمی یا مسلمان بھائی کا مال ہڑپ کرجائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق قرآن میں نازل فرمائی: بے شک وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو معمولی قیمت کے عوض بیچ ڈالتے ہیں۔۔۔ دردناک عذاب ہے۔" راوی حدیث کہتے ہیں: پھر مجھے حضرت اشعث بن قیس ؓ ملے توانھوں نے کہا: آج عبداللہ بن مسعود ؓ نے تم سے کیا بیان کیا ہے؟میں نے کہا: ایسے ایسے بیان کیا ہےتو انھوں نے فرمایا: یہ آیت میرے متعلق نازل ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2676]
حدیث حاشیہ:
عدالت غیب داں نہیں ہوتی۔
کوئی شخص غلط بیانی کرکے جھوٹی قسمیں کھاکر فیصلہ اپنے حق میں کرالے، حالانکہ وہ ناحق پر ہے تو ایسا شخص عنداللہ ملعون ہے، وہ اپنے پیٹ میں آگ کا انگارہ کھارہا ہے۔
قیامت کے دن وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہوگا۔
اس کو یہ حقیقت خوب ذہن نشین کرلینی چاہئے۔
جو لوگ قاضی کے فیصلہ کو ظاہر و باطن ہر حال میں نافذ کہتے ہیں، ان کی غلط بیانی کی طرف بھی یہ اشارہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2676   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2676  
2676. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کر تے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس شخص نے جھوٹی قسم اٹھائی تاکہ اس کے ذریعے سے کسی آدمی یا مسلمان بھائی کا مال ہڑپ کرجائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق قرآن میں نازل فرمائی: بے شک وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو معمولی قیمت کے عوض بیچ ڈالتے ہیں۔۔۔ دردناک عذاب ہے۔" راوی حدیث کہتے ہیں: پھر مجھے حضرت اشعث بن قیس ؓ ملے توانھوں نے کہا: آج عبداللہ بن مسعود ؓ نے تم سے کیا بیان کیا ہے؟میں نے کہا: ایسے ایسے بیان کیا ہےتو انھوں نے فرمایا: یہ آیت میرے متعلق نازل ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2676]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان کے تحت مذکورہ احادیث سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جھوٹ بولنا تو ہر وقت منع ہے لیکن جھوٹی قسم اٹھانا بہت بڑا جرم ہے۔
خاص طور پر عدالت کے روبرو جھوٹی قسم اٹھانا اور جھوٹی گواہی دینا بہت بڑا گناہ ہے۔
جو شخص جھوٹی قسم اٹھا کر اپنے حق میں فیصلہ کرا لیتا ہے ایسا شخص اللہ کے نزدیک ملعون ہے۔
قیامت کے دن وہ اللہ کے عذاب میں گرفتار ہو گا۔
جھوٹی قسم اٹھانے والے کو یہ حقیقت خوب ذہن نشین کر لینی چاہیے۔
(2)
آیت کریمہ کے نزول کے متعلق دونوں احادیث میں بظاہر مخالفت ہے، اس کے متعلق دو طرح سے جواب دیا گیا ہے:
٭ حضرت ابن ابی اوفی ؓ کو اشعث بن قیس ؓ کے واقعے کی اطلاع نہیں ہو سکی، اس لیے انہوں نے اپنی معلومات بیان کی ہیں۔
٭ دونوں واقعات بیک وقت رونما ہوئے اور مذکورہ آیت دونوں واقعات کے بعد نازل ہوئی۔
آیت کے الفاظ دونوں کو شامل ہیں، ان میں کوئی مخالفت نہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2676