صحيح البخاري
كِتَاب الصُّلْحِ -- کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
2. بَابُ لَيْسَ الْكَاذِبُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ:
باب: دو آدمیوں میں میل ملاپ کرانے کے لیے جھوٹ بولنا گناہ نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 2692
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أُمَّهُ أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ عُقْبَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ فَيَنْمِي خَيْرًا أَوْ يَقُولُ خَيْرًا".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا صالح بن کیسان سے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ ان کی والدہ ام کلثوم بنت عقبہ نے انہیں خبر دی اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ جھوٹا وہ نہیں ہے جو لوگوں میں باہم صلح کرانے کی کوشش کرے اور اس کے لیے کسی اچھی بات کی چغلی کھائے یا اسی سلسلہ کی اور کوئی اچھی بات کہہ دے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1938  
´آپس میں صلح کرانے کا بیان۔`
ام کلثوم بنت عقبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور وہ (خود ایک طرف سے دوسرے کے بارے میں) اچھی بات کہے، یا اچھی بات بڑھا کر بیان کرے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1938]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لوگوں کے درمیان صلح ومصالحت کی خاطر اچھی باتوں کا سہارا لے کر جھوٹ بولنا درست ہے،
یہ اس جھوٹ کے دائرہ میں نہیں آتا جس کی قرآن و حدیث میں مذمت آئی ہے،
مثلاً زید سے یہ کہنا کہ میں نے عمر کو تمہاری تعریف کرتے ہوئے سنا ہے وغیرہ،
اسی طرح کی بات عمر کے سامنے رکھنا،
ایسا شخص جھوٹانہیں ہے،
بلکہ وہ ان دونوں کا محسن ہے،
اور شریعت کی نظر میں اس کا شمار نیک لوگوں میں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1938   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4921  
´میل جول اور مصالحت کرانے کا بیان۔`
ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بات میں جھوٹ بولنے کی اجازت دیتے نہیں سنا، سوائے تین باتوں کے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: میں اسے جھوٹا شمار نہیں کرتا، ایک یہ کہ کوئی لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور کوئی بات بنا کر کہے، اور اس کا مقصد اس سے صرف صلح کرانی ہو، دوسرے یہ کہ ایک شخص جنگ میں کوئی بات بنا کر کہے، تیسرے یہ کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کوئی بات بنا کر کہے اور بیوی اپنے شوہر سے کوئی بات بنا کر کہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4921]
فوائد ومسائل:

مسلمان بھائیوں میں صلح اور اصلاح کے لیئے کوئی بات بنانی پڑ جائے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے۔
یہ جھوٹ معیوب نہیں ہوتا۔


میاں بیوی اگر کسی ناراضی کو دور کرنے کے لیئے یا لفظی طور پر ایک دوسرے کو محبت جتلانے کے لیئے کوئی بات کہیں تو جائز ہے تاکہ انکی عائلی زندگی مسرت بھری رہے۔


دشمن کو دھوکہ دینا بھی جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4921   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2692  
2692. حضرت ام کلثوم بنت عقبہ ؓ سے روایت ہےانھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: جو شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح کرادے اور اس میں کوئی اچھی بات منسوب کردے یا اچھی بات کہہ دے تو وہ جھوٹانہیں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2692]
حدیث حاشیہ:
مثلاً دو آدمیوں میں رنج ہوا اور یہ ملاپ کرانے کی نیت سے کہے کہ وہ تو آپ کے خیرخواہ ہیں یا آپ کی تعریف کرتے ہیں۔
قسطلانی ؒنے کہا ایسے جھوٹ کی رخصت ہے جس سے بہت فائدے کی امید ہو۔
امام مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ تین جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت ہے۔
ایک تو لڑائی میں، دوسرے مسلمانوں میں آپس میں میل جول کرانے میں، تیسرے اپنی بیوی سے۔
بعضوں نے اور مقاموں کو بھی جہاں کوئی مصلحت ہو، انہیں پر قیاس کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنا جب منع ہے جب اس سے نقصان پیدا ہو یا اس میں کوئی مصلحت نہ ہو، بعضوں نے کہا جھوٹ ہر حال میں منع ہے اور ایسے مقاموں میں توریہ کرنا بہتر ہے مثلاً کوئی ظالم سے یوں کہے میں تو آپ کے لیے دعا کیا کرتا ہوں اور مطلب یہ رکھے اللهم اغفر للمسلمین کہا کرتا ہوں، اور ضرورت کے وقت تو جھوٹ بولنا بالاتفاق جائز ہے۔
ضرورت سے مذکورہ صلح صفائی کی ضرورت مراد ہے، یا کسی ظالم کے ظلم سے بچنے یا کسی کو بچانے کے لیے جھوٹ بولنا، حدیث إنما الأعمالُ بالنیاتِ کا یہ بھی مطلب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2692   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2692  
2692. حضرت ام کلثوم بنت عقبہ ؓ سے روایت ہےانھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: جو شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح کرادے اور اس میں کوئی اچھی بات منسوب کردے یا اچھی بات کہہ دے تو وہ جھوٹانہیں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2692]
حدیث حاشیہ:
چونکہ اس جھوٹ سے مقصود شر اور فساد کو دفع کرنا ہوتا ہے، اس لیے اسے جھوٹ شمار نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ حقیقت میں جھوٹ ہی ہے۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے:
تین موقعوں پر خلاف واقعہ بات کرنے میں کوئی حرج نہیں:
ایک جنگ کے موقع پر جھوٹ بولنا تاکہ دشمن دھوکے میں آ جائے، دوسرا صلح کراتے وقت خلاف واقعہ بات کہنا اور تیسرا خاوند بیوی کا ایک دوسرے کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولنا۔
(صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث: 6633(2605)
ان کے علاوہ صریح جھوٹ ناجائز اور باعث لعنت ہے۔
(فتح الباري: 369/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2692