سنن ترمذي
كتاب الصلاة -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
15. باب مَا جَاءَ فِي الْوَقْتِ الأَوَّلِ مِنَ الْفَضْلِ
باب: اول وقت میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 174
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً لِوَقْتِهَا الْآخِرِ مَرَّتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَالْوَقْتُ الْأَوَّلُ مِنَ الصَّلَاةِ أَفْضَلُ , وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى فَضْلِ أَوَّلِ الْوَقْتِ عَلَى آخِرِهِ اخْتِيَارُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ , وَعُمَرَ، فَلَمْ يَكُونُوا يَخْتَارُونَ إِلَّا مَا هُوَ أَفْضَلُ وَلَمْ يَكُونُوا يَدَعُونَ الْفَضْلَ، وَكَانُوا يُصَلُّونَ فِي أَوَّلِ الْوَقْتِ. قَالَ: حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو الْوَلِيدِ الْمَكِّيُّ، عَنْ الشَّافِعِيِّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کوئی نماز اس کے آخری وقت میں دو بار نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دے دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند متصل نہیں ہے،
۲- شافعی کہتے ہیں: نماز کا اول وقت افضل ہے اور جو چیزیں اول وقت کی افضیلت پر دلالت کرتی ہیں من جملہ انہیں میں سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم، ابوبکر، اور عمر رضی الله عنہما کا اسے پسند فرمانا ہے۔ یہ لوگ اسی چیز کو معمول بناتے تھے جو افضل ہو اور افضل چیز کو نہیں چھوڑتے تھے۔ اور یہ لوگ نماز کو اول وقت میں پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15922) (حسن) (سند میں اسحاق بن عمر ضعیف ہیں، مگر شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)»

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (608)
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 174  
´اول وقت میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کوئی نماز اس کے آخری وقت میں دو بار نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دے دی۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 174]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں اسحاق بن عمر ضعیف ہیں،
مگر شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 174