صحيح البخاري
كِتَاب الصُّلْحِ -- کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
7. بَابُ الصُّلْحِ مَعَ الْمُشْرِكِينَ:
باب: مشرکین کے ساتھ صلح کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2702
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: انْطَلَقَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ إِلَى خَيْبَرَ، وَهِيَ يَوْمَئِذٍ صُلْحٌ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے بشیر بن یسار نے اور ان سے سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی اللہ عنہما خیبر گئے۔ خیبر کے یہودیوں سے مسلمانوں کی ان دنوں صلح تھی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2702  
2702. حضرت سہل بن ابی حشمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید ؓ خیبر کی طرف گئے، خیبر کے یہودیوں سے ان دنوں مسلمانوں کی صلح تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2702]
حدیث حاشیہ:
اسی سے کافروں کے ساتھ صلح کرنا ثابت ہوا۔
صلح کے متعلق اسلام نے خاص ہدایات اسی لیے دی ہیں کہ اسلام سراسر امن اور صلح کا علمبردار ہے۔
اسلام نے جنگ و جدال کو کبھی پسند نہیں کیا، قرآن مجید میں صاف ہدایت ہے۔
﴿وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا﴾ (الأنفال: 61)
اگر دشمن صلح کرنا چاہے تو آپ ضرور صلح کے لیے جھک جائیے۔
قرآن مجید میں جہاں بھی جنگی احکامات ہیں وہ صرف مدافعت کے لیے ہیں۔
جارحانہ ہدایت کہیں بھی نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2702