سنن ترمذي
كتاب الصلاة -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
150. باب مَا جَاءَ إِذَا حَضَرَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ
باب: شام کا کھانا حاضر ہو اور نماز کھڑی ہو جائے تو پہلے کھانا کھا لو۔
حدیث نمبر: 354
وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " إِذَا وُضِعَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ " قَالَ: وَتَعَشَّى ابْنُ عُمَرَ وَهُوَ يَسْمَعُ قِرَاءَةَ الْإِمَامِ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شام کا کھانا (تمہارے سامنے) رکھ دیا جائے اور نماز کھڑی ہو جائے تو پہلے کھانا کھاؤ، ابن عمر رضی الله عنہما شام کا کھانا کھا رہے تھے اور امام کی قرأت سن رہے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 42 (673، 674)، صحیح مسلم/المساجد 6 (559)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 34 (935)، (تحفة الأشراف: 7825)، کذا (8212)، مسند احمد (2/103) (صحیح)»
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3757  
´جب عشاء اور شام کا کھانا دونوں تیار ہوں تو کیا کرے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے لیے رات کا کھانا چن دیا جائے اور نماز کے لیے اقامت بھی کہہ دی جائے تو (نماز کے لیے) نہ کھڑا ہو یہاں تک کہ (کھانے سے) فارغ ہو لے۔‏‏‏‏ مسدد نے اتنا اضافہ کیا: جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا کھانا چن دیا جاتا یا ان کا کھانا موجود ہوتا تو اس وقت تک نماز کے لیے نہیں کھڑے ہوتے جب تک کہ کھانے سے فارغ نہ ہو لیتے اگرچہ اقامت اور امام کی قرآت کی آواز کان میں آ رہی ہو ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3757]
فوائد ومسائل:
فائدہ: نمازایسی عبادت ہے جس میں رب ذوالجلال سے مناجات ہوتی ہے۔
تو انسان کو اپنے فطری عوارض سے فارغ ہو کر پوری یکسوئی سے نماز اد ا کرنی چاہیے۔
کھانے پر پہنچنے سے پہلے نماز کا بوجھ اتارنے کی کوشش قطعاً مناسب نہیں۔
اسی طرح پیشاب پاخانے کے تقاضے ہیں۔
ضروری ہے کہ انسان پہلے ان امور سے فارغ ہولے، ایسا نہ ہو کہ دھیان کھانے وغیرہ کی طرف لگا ہوا ور نماز میں یکسوئی حاصل نہ ہو پائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3757