صحيح البخاري
كِتَاب الشُّرُوطِ -- کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان
1. بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ الشُّرُوطِ فِي الإِسْلاَمِ وَالأَحْكَامِ وَالْمُبَايَعَةِ:
باب: اسلام میں داخل ہوتے وقت اور معاملات بیع وشراء میں کون سی شرطیں لگانا جائز ہے؟
حدیث نمبر: 2713
قَالَ عُرْوَةُ: فَأَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْتَحِنُهُنَّ بِهَذِهِ الْآيَةِ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ سورة الممتحنة آية 10 إِلَى غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة الممتحنة آية 12، قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَنْ أَقَرَّ بِهَذَا الشَّرْطِ مِنْهُنَّ؟ قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ بَايَعْتُكِ كَلَامًا يُكَلِّمُهَا بِهِ، وَاللَّهِ مَا مَسَّتْ يَدُهُ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ فِي الْمُبَايَعَةِ، وَمَا بَايَعَهُنَّ إِلَّا بِقَوْلِهِ".
عروہ نے کہا کہ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرنے والی عورتوں کا اس آیت کی وجہ سے امتحان لیا کرتے تھے «{‏ يا أيها الذين آمنوا إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن ‏}‏ إلى ‏ {‏ غفور رحيم‏ }‏‏.‏» اے مسلمانو! جب تمہارے یہاں مسلمان عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لے لو غفور رحیم تک۔ عروہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ان عورتوں میں سے جو اس شرط کا اقرار کر لیتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ میں نے تم سے بیعت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف زبان سے بیعت کرتے تھے۔ قسم اللہ کی! بیعت کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کسی بھی عورت کے ہاتھ کو کبھی نہیں چھوا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف زبان سے بیعت لیا کرتے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2713  
2713. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس آیت "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا "كے باعث ان عورتوں کا امتحان لیتے تھے۔ ان میں سے جو عورت بھی اس شرط کا اقرار کر لیتی، اسے رسول اللہ ﷺ فرماتے۔ میں نے تجھ سے بیعت لے لی ہے۔ صرف اس سے یہی کلام کرتے۔ اللہ کی قسم!بیعت کرتے وقت آپ ﷺ کے ہاتھ نے کسی (اجنبی)عورت کے ہاتھ کو مَس نہیں کیا۔ آپ صرف زبانی کلامی گفتگوہی سے)عورتوں سے بیعت لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2713]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں سے بیعت لینے میں صرف زبان سے کہہ دینا کافی ہے، ان کو ہاتھ لگانا درست نہیں ہے۔
جیسے ہمارے زمانہ کے بعض جاہل پیر کرتے ہیں۔
خدا ان سے سمجھے اور ان کو ہدایت کرے۔
صلح حدیبیہ شرائط معلومہ کے ساتھ کی گئی، جن میں بعض شرطیں بظاہر مسلمانوں کے لیے ناگوار بھی تھیں، مگر بہر حال ان ہی شرائط پر صلح کا معاہدہ لکھاگیا، اس سے ثابت ہوا کہ ایسے مواقع پر فریقین مناسب شرطیں لگاسکتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2713   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2713  
2713. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس آیت "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا "كے باعث ان عورتوں کا امتحان لیتے تھے۔ ان میں سے جو عورت بھی اس شرط کا اقرار کر لیتی، اسے رسول اللہ ﷺ فرماتے۔ میں نے تجھ سے بیعت لے لی ہے۔ صرف اس سے یہی کلام کرتے۔ اللہ کی قسم!بیعت کرتے وقت آپ ﷺ کے ہاتھ نے کسی (اجنبی)عورت کے ہاتھ کو مَس نہیں کیا۔ آپ صرف زبانی کلامی گفتگوہی سے)عورتوں سے بیعت لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2713]
حدیث حاشیہ:
(1)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
اس عنوان کے تحت جائز اور ناجائز دونوں قسم کی شرائط کا بیان ہے، مثلاً:
اسلام لاتے وقت کافر شرط عائد کر سکتا ہے کہ مجھے ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل نہ کیا جائے، یہ تو جائز ہے لیکن یہ شرط ناجائز ہے کہ وہ نماز نہیں پڑھے گا یا زکاۃ ادا نہیں کرے گا۔
(فتح الباري: 384/5)
امام بخاری ؒ غالباً یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جو شرط شریعت کے مخالف ہو گی اسے مسترد کر دیا جائے گا اور اس کے مطابق عمل کرنا جائز نہ ہو گا اور جو شرائط شریعت کے مطابق ہوں ان کا پورا کرنا ضروری ہے۔
حسب معاہدہ عورتیں شرط میں داخل تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے خود ان کی واپسی کو غلط قرار دے دیا کیونکہ عورتوں کی واپسی فتنے کا باعث بن سکتی تھی۔
مرد تو ان کے چنگل سے نکلنے اور فرار ہونے کی ہمت رکھتے ہیں لیکن عورتوں میں یہ ہمت نہیں ہوتی۔
چونکہ عورتوں کی واپسی شریعت کے مخالف تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود مداخلت فرمائی اور رسول اللہ ﷺ کو اس سے روک دیا۔
اس میں نہ تو رسول اللہ ﷺ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور نہ کفار نے اس پر کوئی اعتراض ہی کیا بلکہ انہوں نے بھی اس ربانی حکم کو تسلیم کر لیا۔
مخالفت کی صورت میں لڑائی ہوتی۔
لڑائیوں نے ان کی کمر پہلے ہی توڑ دی تھی۔
(2)
اس میں بیعت کا ذکر ہے کہ عورتوں سے بیعت لیتے وقت مصافحہ وغیرہ نہیں کرنا چاہیے۔
وہ شرائط جن سے اہل ایمان خواتین کا امتحان لیا جاتا تھا انہیں درج ذیل آیت میں بیان کیا گیا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّـهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢﴾ )
اے نبی! جب آپ کے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گی، نہ چوری کریں گی، نہ زنا کریں گی، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی، اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور کسی نیک کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی تو آپ ان سے بیعت لے لیں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں، یقینا اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔
(الممتحنة: 12: 60)
اس آیت کریمہ میں بیان کردہ چھ شرائط سے عورتوں کا امتحان ہو جاتا۔
اگر وہ مومن ہوتیں تو ان چھ چیزوں کا اعتراف و اقرار کرتیں اور اگر وہ مومن نہ ہوتیں تو ان سے انکار کر دیتیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2713