سنن ترمذي
أبواب الوتر​ -- کتاب: صلاۃ وترکے ابواب
12. باب مَا جَاءَ فِي مُبَادَرَةِ الصُّبْحِ بِالْوِتْرِ
باب: صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 466
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ نَامَ عَنْ وِتْرِهِ فَلْيُصَلِّ إِذَا أَصْبَحَ " قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت أَبَا دَاوُدَ السِّجْزِيَّ يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ الْأَشْعَثِ، يَقُولُ: سَأَلْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، فَقَالَ أَخُوهُ عَبْدُ اللَّهِ: لَا بَأْسَ بِهِ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدًا يَذْكُرُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ ضَعَّفَ 72 عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، وقَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ثِقَةٌ، قَالَ: وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْكُوفَةِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالُوا: يُوتِرُ الرَّجُلُ إِذَا ذَكَرَ وَإِنْ كَانَ بَعْدَ مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ، وَبِهِ يَقُولُ: سفيان الثوري.
زید بن اسلم (مرسلاً) کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، اور جب صبح کو اٹھے تو پڑھ لے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۱؎،
۲- میں نے ابوداود سجزی یعنی سلیمان بن اشعث کو سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے احمد بن حنبل سے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: ان کے بھائی عبداللہ میں کوئی مضائقہ نہیں،
۳- میں نے محمد (محمد بن اسماعیل بخاری) کو ذکر کرتے سنا، وہ علی بن عبداللہ (ابن المدینی) سے روایت کر رہے تھے کہ انہوں نے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کو ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ (ان کے بھائی) عبداللہ بن زید بن اسلم ثقہ ہیں،
۴- کوفہ کے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آدمی وتر پڑھ لے جب اسے یاد آ جائے، گو سورج نکلنے کے بعد یاد آئے۔ یہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں ۲؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (صحیح) (شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ یہ خود مرسل روایت ہے)»

وضاحت: ۱؎: کیونکہ پہلی حدیث اگرچہ مرفوع ہے مگر عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے طریق سے ہے، اور وہ متکلم فیہ ہیں، جبکہ ان کے بھائی عبداللہ ثقہ ہیں، یعنی اس حدیث کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے۔
۲؎: اس حدیث سے وتر کی قضاء ثابت ہوتی ہے، اس کے قائل بہت سے صحابہ اور ائمہ ہیں، اس مسئلہ میں اگرچہ بہت سے اقوال ہیں مگر احتیاط کی بات یہی ہے کہ وتر اگر کسی وجہ سے رہ جائے تو قضاء کر لے، چاہے جب بھی کرے، کیونکہ وتر سنن و نوافل نمازوں کو طاق بنانے کے لیے مشروع ہوئی ہے، اور اگر کوئی مسافر ہو اور دن بھر میں کسی وقت بھی دو رکعت بھی سنت نہ پڑھ سکا ہو تو ایسے آدمی کو وتر کی ضرورت ہی نہیں، پھر عشاء کے بعد دو رکعت سنت پڑھ لے تب وتر پڑھے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 466  
´صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لینے کا بیان۔`
زید بن اسلم (مرسلاً) کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، اور جب صبح کو اٹھے تو پڑھ لے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 466]
اردو حاشہ:
1؎:
کیونکہ پہلی حدیث اگرچہ مرفوع ہے مگر عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے طریق سے ہے،
اور وہ متکلم فیہ ہیں،
جبکہ ان کے بھائی عبداللہ ثقہ ہیں،
یعنی اس حدیث کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے۔

2؎:
اس حدیث سے وتر کی قضا ثابت ہوتی ہے،
اس کے قائل بہت سے صحابہ اور آئمہ ہیں،
اس مسئلہ میں اگرچہ بہت سے اقوال ہیں مگر احتیاط کی بات یہی ہے کہ وتر اگر کسی وجہ سے رہ جائے تو قضا کر لے،
چاہے جب بھی کرے،
کیونکہ وتر سنن و نوافل نمازوں کو طاق بنانے کے لیے مشروع ہوئی ہے،
اور اگر کوئی مسافر ہو اور دن بھر میں کسی وقت بھی دو رکعت بھی سنت نہ پڑھ سکا ہو تو ایسے آدمی کو وتر کی ضرورت ہی نہیں،
پھر عشاء کے بعد دو رکعت سنت پڑھ لے تب وتر پڑھے۔

نوٹ:
(شواہد و متابعات کی بناء پر یہ روایت صحیح ہے،
ورنہ یہ خود مرسل روایت ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 466