سنن ترمذي
أبواب الوتر​ -- کتاب: صلاۃ وترکے ابواب
21. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّلاَةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) بھیجنے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 484
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَيْسَانَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَدَّادٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَوْلَى النَّاسِ بِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلَاةً " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرُوِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا وَكَتَبَ لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ ".
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن مجھ سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ۱؎ وہ ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ صلاۃ (درود) بھیجے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا جو مجھ پر ایک بار صلاۃ (درود) بھیجتا ہے، اللہ اس پر اس کے بدلے دس بار صلاۃ (درود) بھیجتا ہے ۲؎، اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں (یہی حدیث آگے آ رہی ہے)۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 934) (ضعیف) (سند میں موسیٰ بن یعقوب صدوق لیکن سیٔ الحفظ راوی ہیں، اور محمد بن خالد بھی صدوق ہیں لیکن روایت میں خطا کرتے ہیں (التقریب)»

وضاحت: ۱؎: سب سے زیادہ قریب اور نزدیک ہونے کا مطلب ہے: میری شفاعت کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔
۲؎: یعنی اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (2 / 280)
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1346  
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز سب سے زیادہ میرے قریب وہ لوگ ہوں گے جو مجھ پر زیادہ درود پڑھنے والے ہوں گے۔ (ترمذی) ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1346»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، الصلاة، باب ما جاء في فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وسلم، حديث:484، وابن حبان (الموارد)، حديث:2389.»
تشریح:
1. قیامت کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت اور قرب کا ذریعہ آپ پر کثرت سے دردو شریف پڑھنا ہے۔
2.اس حدیث سے امام ابن حبان رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ اس میں حضرات محدثین رحمہم اللہ کی عظمت اور شان واضح ہوتی ہے کہ جو بولتے اور لکھتے وقت‘ دن رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھتے ہیں۔
3. درود کے مختلف الفاظ احادیث میں منقول ہیں۔
سب سے افضل‘ درود ابراہیمی ہے جو نماز میں پڑھا جاتا ہے۔
اس کی مزید تفصیل جلاء الأفھام اور القول البدیع میں موجود ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1346   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 484  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) بھیجنے کی فضیلت کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن مجھ سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ۱؎ وہ ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ صلاۃ (درود) بھیجے گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 484]
اردو حاشہ:
1؎:
سب سے زیادہ قریب اور نزدیک ہونے کا مطلب ہے:
میری شفاعت کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔

2؎:
یعنی اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

نوٹ:
(سند میں موسیٰ بن یعقوب صدوق لیکن سیٔ الحفظ راوی ہیں،
اور محمد بن خالد بھی صدوق ہیں لیکن روایت میں خطا کرتے ہیں)
(التقریب)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 484