سنن ترمذي
كتاب الجمعة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: جمعہ کے احکام و مسائل
3. باب مَا جَاءَ فِي الاِغْتِسَالِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
باب: جمعہ کے دن کے غسل کا بیان۔
حدیث نمبر: 492
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ أَتَى الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَجَابِرٍ , وَالْبَرَاءِ، وَعَائِشَةَ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو جمعہ کی نماز کے لیے آئے اسے چاہیئے کہ (پہلے) غسل کر لے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس بات میں عمر، ابو سعید خدری، جابر، براء، عائشہ اور ابو الدرداء سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجمعة (844)، (تحفة الأشراف: 6833)، مسند احمد (2/41، 42، 53، 75، 101، 115، 141، 145) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے جمعہ کے دن کے غسل کو واجب قرار دیا ہے، اور جو وجوب کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں امر تاکید کے لیے ہے اس سے مراد وجوب اختیاری (استحباب) ہے جیسے آدمی اپنے ساتھی سے کہے تیرا حق مجھ پر واجب ہے یعنی مؤکد ہے، نہ کہ ایسا وجوب جس کے ترک پر سزا اور عقوبت ہو۔ (اس تاویل کی وجہ حدیث رقم ۴۹۷ ہے)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1088)
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 212  
´جمعہ کی نماز کے لئے غسل کرنا مستحب ہے`
«. . . وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا جاء احدكم الجمعة فليغتسل. . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ (کی نماز) کے لئے آئے تو وہ غسل کرے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 212]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 877، من حديث مالك و مسلم 844، من حديث نافع به]
تفقہ:
➊ اس حدیث اور دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا ضروری (واجب) ہے لیکن بعض احادیث سے ثابت ہے کہ یہ غسل ضروری نہیں بلکہ سنت و مستحب ہے۔
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من توضأ فبھا ونعمت ومن اغتسل فذلك أفضل۔» جس نے وضو کیا تو اچھا کیا اور جس نے غسل کیا تو یہ افضل ہے۔ [صحيح ابن خزيمه: 1757، وسنده حسن، سنن ابي داؤد: 354، والحسن البصري صرح بالسماع عند الطّوسي فى مختصر الاحكام 3/10 ح467/334 وسنده حسن]
◈ حسن بصری کی سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کتاب سے روایت کی وجہ سے حسن ہوتی ہے چاہے سماع کی تصریح ہو یا نہ ہو اور اس روایت میں تو انہوں نے سماع کی تصریح کردی ہے۔ «والحمدلله»
➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: غسل جنابت کی طرح جمعہ کے دن غسل کرنا بھی ہر نوجوان پر واجب ہے۔ [الموطأ 1/101 ح224، وسنده صحيح]
◈ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جمعہ کے دن غسل سنت میں سے ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/96 ح5020 وسنده صحيح، البزار فى كشف الاستار: 627]
◈ امام شعبی نے فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن وضو کرے تو اچھا ہے اور جو غسل کرے تو افضل ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/96، 97 ح5023 وسنده صحيح]
➌ مجاہد تابعی نے فرمایا: جمعہ کے دن جو شخص طلوع فجر کے بعد غسل کرے تو یہ اس کے لئے غسل جمعہ کی طرف سے کافی ہے۔ [ابن ابي شيبه 2/99 ح5041 وسنده صحيح]
➍ نظافت کی ترغیب اور اجتماعات میں شرکت کے وقت نظافت کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 204   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 492  
´جمعہ کے دن کے غسل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو جمعہ کی نماز کے لیے آئے اسے چاہیئے کہ (پہلے) غسل کر لے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 492]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے جمعہ کے دن کے غسل کو واجب قرار دیا ہے،
اور جو وجوب کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں امر تاکید کے لیے ہے اس سے مراد وجوب اختیاری (استحباب) ہے جیسے آدمی اپنے ساتھی سے کہے تیرا حق مجھ پر واجب ہے یعنی مؤکد ہے،
نہ کہ ایسا وجوب جس کے ترک پر سزا اورعقوبت ہو۔
(اس تاویل کی وجہ حدیث رقم 497 ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 492