سنن ترمذي
كتاب الجمعة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: جمعہ کے احکام و مسائل
20. باب مَا جَاءَ فِي أَذَانِ الْجُمُعَةِ
باب: جمعہ کی اذان کا بیان۔
حدیث نمبر: 516
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الْخَيَّاطُ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: " كَانَ الْأَذَانُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ إِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ وَإِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى الزَّوْرَاءِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے زمانے میں (پہلی) اذان اس وقت ہوتی جب امام نکلتا اور (دوسری) جب نماز کھڑی ہوتی ۱؎ پھر جب عثمان رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے زوراء ۲؎ میں تیسری اذان کا اضافہ کیا ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجمعة 21 (912)، و22 (913)، و24 (915)، و25 (916)، سنن ابی داود/ الصلاة 225 (1087)، سنن النسائی/الجمعة 15 (1393)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 97 (1135)، (تحفة الأشراف: 3799)، مسند احمد (3/450) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہاں دوسری اذان سے مراد اقامت ہے۔
۲؎: زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ کا نام تھا۔
۳؎: عثمان رضی الله عنہ نے مسجد سے دور بازار میں پہلی اذان دلوائی، اور فی زمانہ لوگوں نے یہ اذان مسجد کے اندر کر دی ہے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اذان عثمان رضی الله عنہ کی سنت ہے، اگر کہیں واقعی اس طرح کی ضرورت موجود ہو تو اذان مسجد سے باہر دی جائے، ویسے اب مائک کے انتظام اور اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں گھڑیوں کی موجودگی کے سبب اس طرح کی اذان کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ گئی، جس ضرورت کے تحت عثمان رضی الله عنہ یہ زائد اذان دلوائی تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1135)
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1087  
´جمعہ کے دن اذان دینے کا بیان۔`
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا، پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت ہوئی، اور لوگوں کی تعداد بڑھ گئی تو جمعہ کے دن انہوں نے تیسری اذان کا حکم دیا، چنانچہ زوراء ۱؎ پر اذان دی گئی پھر معاملہ اسی پر قائم رہا ۲؎۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1087]
1087۔ اردو حاشیہ:
اصل اذان جو کہ امام کہ منبر پر بیٹھنے کے وقت کی ہے پہلی اذان ہے۔ اور اقامت یعنی جماعت کے لئے تکبیر کو دوسری اذان کہا گیا ہے اور خطبہ شروع ہونے سے کچھ وقت پہلے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے جو اذان شروع کرائی گئی وہ تیسری اذان ہوئی۔ جو کہ عملاً پہلی مگر رتبہ میں تیسری ہے اسے عرف عام میں دوسری اذان اور تاریخی لحاظ سے اذان عثمانی کہتے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی اکثریت نے اسے قبول کیا ہے اور یہ عالم اسلام میں اسی دور سے جاری و ساری ہے۔ یہ اذان لوگوں کو متنبہ کرنے کے لئے تھی جیسے کہ اذان فجر سے کچھ پہلے متنبہ کرنے کے لئے دور نبوت میں اذان کہلوائی گئی۔ ابن ابی شیبہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اس اذان کو بدعت کہا ہے۔ اصحاب الحدیث کے ہاں ایسے مسائل میں توسع ہے افضل اور راحج یہی ہے کہ دور نبوت کا عمل اختیار کیا جائے۔ حسب ضرورت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا معمول اپنا لینے میں بھی کوئی حرج نہیں، ویسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ اذان مسجد نبوی سے ایک میل دور مقام زورا میں کہلوائی تھی، وہاں بازار لگتا تھا اور لوگوں کو نماز کے وقت کا علم نہیں ہوتا تھا۔ یہ اذان اتنی پہلے کہی جاتی تھی کہ لوگ یہ اذان سن کر سامان سمیٹتے، گھر جاتے، غسل اور وضو کر کے لباس بدل کر خطبہ شروع ہونے سے پہلے مسجد نبوی میں آ جاتے۔ لہٰذا اگر، اذان عثمانی ہی کہلانی ہو تو اس پس منظر کو ملحوظ رکھنا چاہیے، ورنہ خطبے سے چند منٹ پہلے امام کے منہ کے سامنے کھڑے ہو کر اذان کہنا اذان عثمانی کی متابعت ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ یہ طبع زاد اور ایجاد بند ہ ہے۔
«زورا» زاء کی فتحہ واؤ ساکن اور آخر میں الف ممدودہ۔ زورا بازار مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام تھا جو مسجد نبوی سے کوئی ایک میل کے فاصلے پر تھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1087   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 516  
´جمعہ کی اذان کا بیان۔`
سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے زمانے میں (پہلی) اذان اس وقت ہوتی جب امام نکلتا اور (دوسری) جب نماز کھڑی ہوتی ۱؎ پھر جب عثمان رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے زوراء ۲؎ میں تیسری اذان کا اضافہ کیا ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 516]
اردو حاشہ:
1؎:
یہاں دوسری اذان سے مراد اقامت ہے۔

2؎:
زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ کا نام تھا۔

3؎:
عثمان رضی اللہ عنہ نے مسجد سے دور بازار میں پہلی اذان دلوائی،
اور فی زمانہ لوگوں نے یہ اذان مسجد کے اندر کر دی ہے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اذان عثمان رضی اللہ عنہ کی سنت ہے،
اگر کہیں واقعی اس طرح کی ضرورت موجود ہو تو اذان مسجد سے باہر دی جائے،
ویسے اب مائک کے انتظام اور اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں گھڑیوں کی موجودگی کے سبب اس طرح کی اذان کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ گئی،
جس ضرورت کے تحت عثمان رضی اللہ عنہ یہ زائد اذان دلوائی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 516