صحيح البخاري
كِتَاب الشُّرُوطِ -- کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان
14. بَابُ إِذَا اشْتَرَطَ فِي الْمُزَارَعَةِ إِذَا شِئْتُ أَخْرَجْتُكَ:
باب: مزارعت میں مالک نے کاشتکار سے یہ شرط لگائی کہ جب میں چاہوں گا تجھے بے دخل کر سکوں گا۔
حدیث نمبر: 2730
حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مَرَّارُ بْنُ حَمُّويَهْ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى أَبُو غَسَّانَ الْكِنَانِيُّ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمَّا فَدَعَ أَهْلُ خَيْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَامَ عُمَرُ خَطِيبًا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَامَلَ يَهُودَ خَيْبَرَ عَلَى أَمْوَالِهِمْ، وَقَالَ: نُقِرُّكُمْ مَا أَقَرَّكُمُ اللَّهُ، وَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ خَرَجَ إِلَى مَالِهِ هُنَاكَ، فَعُدِيَ عَلَيْهِ مِنَ اللَّيْلِ، فَفُدِعَتْ يَدَاهُ وَرِجْلَاهُ، وَلَيْسَ لَنَا هُنَاكَ عَدُوٌّ غَيْرَهُمْ هُمْ عَدُوُّنَا وَتُهْمَتُنَا، وَقَدْ رَأَيْتُ إِجْلَاءَهُمْ، فَلَمَّا أَجْمَعَ عُمَرُ عَلَى ذَلِكَ أَتَاهُ أَحَدُ بَنِي أَبِي الْحُقَيْقِ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَتُخْرِجُنَا وَقَدْ أَقَرَّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَامَلَنَا عَلَى الْأَمْوَالِ، وَشَرَطَ ذَلِكَ لَنَا، فَقَالَ عُمَرُ: أَظَنَنْتَ أَنِّي نَسِيتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَيْفَ بِكَ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنْ خَيْبَرَ تَعْدُو بِكَ قَلُوصُكَ لَيْلَةً بَعْدَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ: كَانَتْ هَذِهِ هُزَيْلَةً مِنْ أَبِي الْقَاسِمِ، قَالَ: كَذَبْتَ يَا عَدُوَّ اللَّهِ، فَأَجْلَاهُمْ عُمَرُ وَأَعْطَاهُمْ قِيمَةَ مَا كَانَ لَهُمْ مِنَ الثَّمَرِ مَالًا وَإِبِلًا وَعُرُوضًا مِنْ أَقْتَابٍ وَحِبَالٍ وَغَيْرِ ذَلِكَ". رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ أَحْسِبُهُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَصَرَهُ.
ہم سے ابواحمد مرار بن حمویہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے محمد بن یحییٰ ابوغسان کنانی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب ان کے ہاتھ پاؤں خیبر والوں نے توڑ ڈالے تو عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے ‘ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر کے یہودیوں سے ان کی جائیداد کا معاملہ کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں قائم رکھے ہم بھی قائم رکھیں گے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وہاں اپنے اموال کے سلسلے میں گئے تو رات میں ان کے ساتھ مار پیٹ کا معاملہ کیا گیا جس سے ان کے پاؤں ٹوٹ گئے۔ خیبر میں ان کے سوا اور کوئی ہمارا دشمن نہیں ‘ وہی ہمارے دشمن ہیں اور انہیں پر ہمیں شبہ ہے اس لیے میں انہیں جلا وطن کر دینا ہی مناسب جانتا ہوں۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا تو بنو ابی حقیق (ایک یہودی خاندان) کا ایک شخص تھا ’ آیا اور کہا یا امیرالمؤمنین کیا آپ ہمیں جلا وطن کر دیں گے حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں باقی رکھا تھا اور ہم سے جائیداد کا ایک معاملہ بھی کیا تھا اور اس کی ہمیں خیبر میں رہنے دینے کی شرط بھی آپ نے لگائی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھول گیا ہوں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ تمہارا کیا حال ہو گا جب تم خیبر سے نکالے جاؤ گے اور تمہارے اونٹ تمہیں راتوں رات لیے پھریں گے۔ اس نے کہا یہ ابوالقاسم (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ایک مذاق تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے دشمن! تم نے جھوٹی بات کہی۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں شہر بدر کر دیا اور ان کے پھلوں کی کچھ نقد قیمت کچھ مال اور اونٹ اور دوسرے سامان یعنی کجاوے اور رسیوں کی صورت میں ادا کر دی۔ اس کی روایت حماد بن سلمہ نے عبیداللہ سے نقل کی ہے جیسا کہ مجھے یقین ہے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختصر طور پر۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1383  
´مزارعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں کے ساتھ خیبر کی زمین سے جو بھی پھل یا غلہ حاصل ہو گا اس کے آدھے پر معاملہ کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1383]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے مزارعت (بٹائی پرزمین دینے) کا جواز ثابت ہوتاہے،
ائمہ ثلاثہ اوردیگرعلمائے سلف وخلف سوائے امام ابوحنیفہ کے جواز کے قائل ہیں،
احناف نے خیبرکے معاملے کی تاویل یہ کی ہے کہ یہ لوگ آپﷺ کے غلام تھے،
لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے نُقرُكُم مَا أَقَركُمُ الله ہم تمہیں اس وقت تک برقراررکھیں گے جب تک اللہ تمہیں برقراررکھے گا،
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے غلام نہیں تھے،
نیز احناف کا کہنا ہے کہ یہ معدوم یا مجہول پیداوار کے بدلے اجارہ ہے جو جائز نہیں،
اس کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ اس کی مثال مضارب کی ہے کہ مضارب جس طرح نفع کی امید پر محنت کرتا ہے اوروہ نفع مجہول ہے اس کے باوجود وہ جائز ہے،
اسی طرح مزارعت میں بھی یہ جائز ہوگا،
رہیں وہ روایات جو مزارعت کے عدم جواز پر دلالت کرتی ہیں توجمہور نے ان روایات کی تاویل کی ہے کہ یہ روایات نہی تنزیہی پر دلالت کرتی ہیں،
یا یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب صاحب زمین کسی مخصوص حصے کی پیداوار خود لینے کی شرط کر لے (واللہ اعلم) حاصل بحث یہ ہے کہ مزارعت کی جائز شکل یہ ہے کہ مالک اوربٹائی پر لینے والے کے مابین زمین سے حاصل ہو نے والے غلّہ کی مقدار اس طرح متعین ہو کہ دونوں کے مابین جھگڑے کی نوبت نہ آئے اور غلّہ سے متعلق نقصان اور فائدہ میں طے شدہ امرکے مطابق دونوں شریک ہوں یا روپے کے عوض زمین بٹائی پر دی جائے اورمزارعت کی وہ شکل جوشرعاً ناجائز ہے وہ حنظلہ بن قیس انصاری کی روایت میں ہے،
وہ کہتے ہیں رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زمین کی بٹائی کا معاملہ اس شرط پر کرتے تھے کہ زمین کے اس مخصوص حصے کی پیداوارمیں لوں گا اورباقی حصے کی تم لینا،
تونبی اکرمﷺ نے اس سے منع فرما دیا کیونکہ اس صورت میں کبھی بٹائی پر لینے والے کا نقصان ہوتا کبھی دینے والے کا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1383   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3008  
´خیبر کی زمینوں کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ: آپ ہمیں اس شرط پر یہیں رہنے دیں کہ ہم محنت کریں گے اور جو پیداوار ہو گی اس کا نصف ہم لیں گے اور نصف آپ کو دیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا ہم تمہیں اس شرط پر رکھ رہے ہیں کہ جب تک چاہیں گے رکھیں گے،، چنانچہ وہ اسی شرط پر رہے، خیبر کی کھجور کے نصف کے کئی حصے کئے جاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے پانچواں حصہ لیتے، اور اپنی ہر بیوی کو سو وسق کھجور اور بیس وسق جو (سال بھر میں) دیتے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3008]
فوائد ومسائل:

صحیح مسلم کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے زمین اور پانی کا انتخاب کیا۔
اور بعض دیگر ازواج مطہرات نے رضی اللہ عنہما نے حسب سابق متعین حصہ چنا۔
صحیح مسلم کی یہ روایت بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ہے۔
اور زیادہ مفصل اور واضح ہے۔
اس روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے خیبر میں فے کی زمینوں کی آمدنی میں سے سالانہ خرچ کے طور پر اپنی ہر زوجہ محترمہ کو کل سو وسق اسی وسق کھجور اور بیس وسق جو مقرر فرمائے تھے۔
(صحیح مسلم، المساواة، حدیث:1551) ابو دائود کی حدیث 3006 میں بھی یہی مقدار مذکور ہے۔
البتہ موجودہ روایت میں کل سو وسق کی بجائے کھجور سو وسق اور اس کے علاوہ جو بیس وسق کی مقدار بیان کی گئی ہے۔
معلوم ہوتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرنے والے رایوں میں سے کوئی راوی ظن وتخمین سے مقدار بیان کرتے ہوئے التباس کا شکار ہوگیا۔
اور کل سو کی بجائے کھجور سو وسق اور جو بیس وسق کا ذکرکیا گیا۔
(فتح الودود بحوالة عون المعبود باب ما جاء في حکم أرض خیبر)

خیبر کے طریق کے مطابق بٹائی پر زمین لینا اور دینا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3008   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2730  
2730. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، کہ خیبرکے یہودیوں نے ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے تو حضرت عمر ؓ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں سے خیبرکا معاملہ ان کے اموال کے متعلق کیا اور فرمایا تھا۔ جب تک اللہ تعالیٰ تمھیں ٹھہرائے گا ہم تمھیں ٹھہرائیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ وہاں خیبر میں اپنے مال کی دیکھ بھال کے لیے گئے تو رات کے وقت ان پر تشدد کیا گیا اور ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے گئےہیں۔ وہاں یہودیوں کے علاوہ ہمارا کوئی دشمن نہیں۔ وہی لوگ ہمارے دشمن ہیں اور ہم انھی پر اپنے شبہ کا اظہار کرتے ہیں، اس لیے انھیں جلا وطن کر دینا ہی مناسب خیال کرتا ہوں، چنانچہ جب انھوں نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا تو ابو الحقیق خاندان کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: امیر امومنین!آپ ہمیں کیسے یہاں سے جلاوطن کر سکتے ہیں جبکہ ہمیں محمد ﷺ نے ٹھہرایا اور ہمارے اموال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2730]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
روایت کے شروع سند میں ابو احمد مرار بن حمویہ ہیں۔
جامع الصحیح میں ان سے اور ان کے شیخ سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔
حضرت عمر ؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ کو پیداوار وصول کرنے کے لئے خیبر بھیجا تھا۔
وہاں بدعہد یہودیوں نے موقع پاکر حضرت عبداللہ کو ایک چھت سے نیچے دھکیل دیا اور ان کے ہاتھ پیر توڑدیئے۔
ایسی ہی شرارتوں کی وجہ سے حضرت عمر ؓ نے خیبر سے یہود کو جلاوطن کردیا۔
خیبر کی فتح کے بعد رسول کریم ﷺ نے مفتوحہ زمینات کا معاملہ خیبر کے یہودیوں سے کرلیا تھا اور کوئی مدت مقرر نہیں کی بلکہ یہ فرمایا کہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے نہیں ہے بلکہ جب اللہ چاہے گایہ معاملہ ختم کردیا جائے گا۔
اسی بنا پر حضرت عمر ؓ نے اپنے عہدخلافت میں ان کو بے دخل کرکے دوسری جگہ منتقل کرادیا۔
اس بد عہد قوم نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی’ اس لئے یہ قوم ملعون اور مطرود قرار پائی۔
اسی حدیث سے یہ نکلا کہ زمین کا مالک اگر کاشتکار کا کوئی قصور دیکھے تو اس کو بے دخل کرسکتا ہے گو وہ کام شروع کرچکا ہو مگر اس کے کام کا بدل دینا ہوگا جیسے کہ حضرت عمر ؓ نے کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2730   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2730  
2730. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، کہ خیبرکے یہودیوں نے ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے تو حضرت عمر ؓ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں سے خیبرکا معاملہ ان کے اموال کے متعلق کیا اور فرمایا تھا۔ جب تک اللہ تعالیٰ تمھیں ٹھہرائے گا ہم تمھیں ٹھہرائیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ وہاں خیبر میں اپنے مال کی دیکھ بھال کے لیے گئے تو رات کے وقت ان پر تشدد کیا گیا اور ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے گئےہیں۔ وہاں یہودیوں کے علاوہ ہمارا کوئی دشمن نہیں۔ وہی لوگ ہمارے دشمن ہیں اور ہم انھی پر اپنے شبہ کا اظہار کرتے ہیں، اس لیے انھیں جلا وطن کر دینا ہی مناسب خیال کرتا ہوں، چنانچہ جب انھوں نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا تو ابو الحقیق خاندان کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: امیر امومنین!آپ ہمیں کیسے یہاں سے جلاوطن کر سکتے ہیں جبکہ ہمیں محمد ﷺ نے ٹھہرایا اور ہمارے اموال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2730]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ جب کسی سے مزارعت کا معاملہ کیا جائے تو سال مکمل ہونے سے پہلے پہلے مزارع کو بے دخل نہیں کیا جا سکتا، جب اس سال کی فصل اٹھا لے گا تو عقد مزارعت ختم ہو گا، لیکن امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ اگر زمین کا مالک مزارع سے یہ شرط کر لے کہ میں جب چاہوں گا تجھے بے دخل کر دوں گا تو یہ شرط جائز ہے بشرطیکہ فریقین اسے بخوشی قبول کر لیں۔
(2)
اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے عجیب اسلوب اختیار کیا ہے۔
کتاب المزارعہ میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(إذ قال رب الارض:
أقرك ما أقرك الله)

میں تمہیں ٹھہرائے رکھوں گا جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں ٹھہرائے گا۔
اور حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
(نقركم بها علی ذلك ما شئنا)
ہم جب تک چاہیں گے تمہیں ٹھہرائے رکھیں گے۔
اور یہاں عنوان یہ ہے:
(إذا شئت أخرجتك)
میں جب چاہوں گا تجھے بے دخل کر سکوں گا۔
اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
(نقركم ما أقركم الله)
جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں ٹھہرائے گا ہم تمہیں ٹھہرائیں گے۔
اس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے:
ایک یہ کہ یہودیوں کا سرزمین خیبر سے نکلنا اللہ نے ان کے مقدر میں لکھا ہوا تھا، انہوں نے یہاں سے ضرور نکلنا تھا۔
دوسرا یہ کہ اگر پہلے دن ہی یہ شرط کر لی جائے کہ ہم جب چاہیں گے بے دخل کر سکیں گے اور فریقین رضامندی سے اس شرط کو قبول کر لیں تو ایسا کرنا جائز ہے۔
(3)
نیز اگر زمین کا مالک کاشتکار سے کوئی قصور یا خیانت دیکھے تو اسے بے دخل کرنے کا مجاز ہے اگرچہ مزارع اپنا کام شروع کر چکا ہو، مگر جو محنت اس نے کر رکھی ہے اس کا بدل ضرور دینا ہو گا۔
مقصد یہ ہے کہ تمدنی اور معاشرتی امور میں باہمی طور پر معاملات جن شرائط سے طے پا جائیں وہ اگر جائز حدود میں ہوں تو ضرور قابل تسلیم ہوں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2730