صحيح البخاري
كِتَاب الْغُسْل -- کتاب: غسل کے احکام و مسائل
10. بَابُ تَفْرِيقِ الْغُسْلِ وَالْوُضُوءِ:
باب: اس بیان میں کہ غسل اور وضو کے درمیان فصل کرنا بھی جائز ہے۔
وَيُذْكَرُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ غَسَلَ قَدَمَيْهِ بَعْدَ مَا جَفَّ وَضُوءُهُ.
‏‏‏‏ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنے قدموں کو وضو کردہ اعضاء کے خشک ہونے کے بعد دھویا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q265  
´غسل اور وضو کے درمیان فصل کرنا بھی جائز ہے`
«. . . وَيُذْكَرُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ غَسَلَ قَدَمَيْهِ بَعْدَ مَا جَفَّ وَضُوءُهُ . . . .»
. . . ‏‏‏‏ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنے قدموں کو وضو کردہ اعضاء کے خشک ہونے کے بعد دھویا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ تَفْرِيقِ الْغُسْلِ وَالْوُضُوءِ:: Q265]

تشریح:
اس اثر کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الام میں روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بازار میں وضو کیا، پھر ایک جنازے میں بلائے گئے تو وہاں آپ نے موزوں پر مسح کیا اور جنازے کی نماز پڑھی۔
حافظ نے کہا: اس کی سند صحیح ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشاء باب یہ ہے کہ غسل اور وضو میں موالات واجب نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 265   
حدیث نمبر: 265
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَتْ مَيْمُونَةُ:" وَضَعْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاءً يَغْتَسِلُ بِهِ، فَأَفْرَغَ عَلَى يَدَيْهِ فَغَسَلَهُمَا مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَفْرَغَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ فَغَسَلَ مَذَاكِيرَهُ، ثُمَّ دَلَكَ يَدَهُ بِالْأَرْضِ، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ وَغَسَلَ رَأْسَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَفْرَغَ عَلَى جَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى مِنْ مَقَامِهِ فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ".
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے سالم بن ابی الجعد کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے کریب مولیٰ ابن عباس سے، انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے پانی اپنے ہاتھوں پر گرا کر انہیں دو یا تین بار دھویا۔ پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں پر گرا کر اپنی شرمگاہوں کو دھویا۔ پھر ہاتھ کو زمین پر رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنے سر کو تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہایا، پھر آپ اپنی غسل کی جگہ سے الگ ہو گئے۔ پھر اپنے قدموں کو دھویا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 265  
´غسل اور وضو کے درمیان فصل کرنا`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَتْ مَيْمُونَةُ: " وَضَعْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاءً يَغْتَسِلُ بِهِ، فَأَفْرَغَ عَلَى يَدَيْهِ فَغَسَلَهُمَا مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَفْرَغَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ فَغَسَلَ مَذَاكِيرَهُ، ثُمَّ دَلَكَ يَدَهُ بِالْأَرْضِ، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ وَغَسَلَ رَأْسَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَفْرَغَ عَلَى جَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى مِنْ مَقَامِهِ فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ " . . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے پانی اپنے ہاتھوں پر گرا کر انہیں دو یا تین بار دھویا۔ پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں پر گرا کر اپنی شرمگاہوں کو دھویا۔ پھر ہاتھ کو زمین پر رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنے سر کو تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہایا، پھر آپ اپنی غسل کی جگہ سے الگ ہو گئے۔ پھر اپنے قدموں کو دھویا۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ تَفْرِيقِ الْغُسْلِ وَالْوُضُوءِ:: 265]

تشریح:
امام احمد کی روایت میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا میں نہیں چاہتا۔ آداب غسل سے ہے کہ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر پہلے خوب اچھی طرح سے استنجاء کر لیا جائے۔ ترجمہ باب حدیث سے ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 265   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 265  
265. حضرت میمونہ بنت حارث‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انهوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا اور پردہ کر دیا۔ آپ نے اپنے (دائیں ہاتھ سے بائیں) ہاتھ پر پانی ڈالا، پھر اسے ایک یا دو مرتبہ دھویا۔ حضرت سلیمان اعمش کہتےہیں: مجھے یاد نہیں، سالم نے تیسری مرتبہ کا ذکر کیا یا نہیں۔ پھر آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور اپنی شرمگاہ کو دھویا، پھر زمین یا دیوار سے اپنا ہاتھ رگڑا۔ پھر آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا، اور اپنے چہرہ مبارک اور ہاتھوں کو دھویا اور سر کو دھویا، پھر بدن پر پانی بہایا۔ اس کے بعد ایک طرف ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ بعد ازاں میں نے ایک کپڑا دیا لیکن آپ نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ فرمایا اور اس کے لینے کا ارادہ نہیں فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:265]
حدیث حاشیہ:
یہاں حضرت امام بخاری ؒ نے یہ نکالا ہے کہ موالات واجب نہیں ہے۔
یہاں تک کہ آپ نے سارا وضو کرلیا۔
مگرپاؤں نہیں دھوئے۔
یہاں تک کہ آپ غسل سے فارغ ہوئے، پھر آپ نے پیردھوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 265   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 274  
´جنابت میں وضو لینے کے بعد باقی جسم کو دھونا اور وضو کے اعضاء دوبارہ نہ دھونا`
«. . . وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضُوءًا لِجَنَابَةٍ فَأَكْفَأَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ فَرْجَهُ، ثُمَّ ضَرَبَ يَدَهُ بِالْأَرْضِ أَوِ الْحَائِطِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ الْمَاءَ، ثُمَّ غَسَلَ جَسَدَهُ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کے لیے پانی رکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دو یا تین مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا۔ پھر شرمگاہ دھوئی۔ پھر ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر دو یا تین بار رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے اور بازوؤں کو دھویا۔ پھر سر پر پانی بہایا اور سارے بدن کا غسل کیا۔ پھر اپنی جگہ سے سرک کر پاؤں دھوئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل: 274]

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ جنابت میں وضو لینے کے بعد باقی جسم کو دھونا اور وضو کے اعضاء دوبارہ نہ دھونا۔ کیوں کہ ابتداء ہی میں وضو کیا جاتا ہے جب آخری مرتبہ جسم پر پانی ڈال دیا جائے تو دوبارہ وضو کی ضرورت نہیں جیسا کہ حدیث کے متن میں واضح ہے کہ آپ نے پورے جسم پر پانی بہایا اور اس جگہ سے ہٹ کر اپنے پیر دھوئے اور اس کے بعد دوبارہ وضو نہیں کیا۔

شاہ صاحب فرماتے ہیں:
«فرض المصنف ان اعادة غسل سائر اعضاء الوضؤ غير لازم والاستدلال بظاهر الحديث» [شرح تراجم ابواب البخاري: ص 112]
امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ غسل کے بعد تمام اعضاء وضوء تو دوبارہ دھونا لازم نہیں ہے اور مصنف رحمہ اللہ نے حدیث کے ظاہر سے استدلال فرمایا۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کلی اور ناک میں پانی ڈالتے وقت اگر غسل اور وضو کی نیت ہے تو دوبارہ اعضاء کو دھونے پر اختیار ہے، یعنی غسل میں کیا گیا وضو کافی ہو گا۔ جب کہ اس نے دونوں کی نیت کی ہے۔ [المغني۔ ج1۔ ص289]
ہاں البتہ اتنا یاد رکھنا چاہئیے کہ غسل کے دوران شرمگاہ پر ہاتھ لگ جائے تو وضو کا اعادہ ضروری ہو گا۔

ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«يجب الوضوء إذا مس فرجه فى الغسل»
جب شرمگاہ پر ہاتھ لگ جائے تو وضوء لازم ہو جاتا ہے۔ [عارضة الاجوزي، ج1، ص163]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 141   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 245  
´غسل جنابت کے طریقے کا بیان `
«. . . حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالَتِهِ مَيْمُونَةَ، قَالَتْ: وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا يَغْتَسِلُ بِهِ مِنَ الْجَنَابَةِ، فَأَكْفَأَ الْإِنَاءَ عَلَى يَدِهِ الْيُمْنَى فَغَسَلَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ صَبَّ عَلَى فَرْجِهِ فَغَسَلَ فَرْجَهُ بِشِمَالِهِ، ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ الْأَرْضَ فَغَسَلَهَا، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ صَبَّ عَلَى رَأْسِهِ وَجَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى نَاحِيَةً فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ، فَنَاوَلْتُهُ الْمِنْدِيلَ فَلَمْ يَأْخُذْهُ وَجَعَلَ يَنْفُضُ الْمَاءَ عَنْ جَسَدِهِ . . .»
. . . ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل جنابت کا پانی رکھا، تاکہ آپ غسل کر لیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن کو اپنے داہنے ہاتھ پر جھکایا اور اسے دوبار یا تین بار دھویا، پھر اپنی شرمگاہ پر پانی ڈالا، اور بائیں ہاتھ سے اسے دھویا، پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر مارا اور اسے دھویا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے، پھر اپنے سر اور جسم پر پانی ڈالا، پھر کچھ ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے، میں نے بدن پونچھنے کے لیے رومال دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں لیا، اور پانی اپنے بدن سے جھاڑنے لگے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ: 245]
فوائد و مسائل:
➊ غسل جنابت ہو یا عام غسل، مسنون طریقہ یہی ہے جو ان احادیث میں آیا ہے کہ پہلے استنجا اور زیریں جسم دھویا جائے، بعد ازاں وضو کر کے باقی جسم پر پانی بہایا جائے۔ اس وضو میں سر پر مسح کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت سے پہلے والے وضو میں سر کے مسح کا ذکر نہیں ملتا، صرف تین مرتبہ سر پر پانی بہانے کا ذکر ہے۔ اسی لیے امام نسائی رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے غسل جنابت سے پہلے وضو میں سر کے مسح کا چھوڑ دینا۔ اس باب کے تحت حدیث میں وضو کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے۔ یہاں تک کہ جب آپ سر پر پہنچے، تو اس کا مسح نہیں کیا، بلکہ اس پر پانی بہایا۔ [سنن نسائي حديث: 422]
➋ مختلف احادیث میں وضو کا انداز مختلف نقل ہوا ہے۔ بعض میں پاؤں دھونے کے موقع کا بالکل ذکر نہیں ہے۔ بعض میں صراحت ہے کہ غسل سے فراغت کے بعد دھوئے اور بعض میں دو دفعہ کا ذکر ہے۔ پہلی دفعہ میں وضو کے ساتھ اور دوسری دفعہ فراغت کے بعد اور ظاہر ہے کہ سب ہی صورتیں جائز ہیں۔
➌ غسل کے بعد تولیہ کا استعمال مباح ہے، نہ کرے تو سنت رسول پر عمل کے ثواب کا امیدوار ہونا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 245   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 418  
´پانی بہانے سے پہلے جنبی کا اپنے اوپر لگی ہوئی گندگی دور کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کیا، البتہ اپنے دونوں پاؤں نہیں دھوئے، اور (وضو سے پہلے) آپ نے اپنی شرمگاہ اور اس پر لگی ہوئی گندگی دھوئی، پھر اپنے جسم پر پانی بہایا، پھر اپنے دونوں پاؤں کو ہٹایا اور انہیں دھویا، یہی (آپ کے) غسل جنابت کا طریقہ تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 418]
418۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں استنجا کرنے سے پہلے وضو کرنے کا بیان ہے۔ یہ بیان میں سہو ہے۔ اگلی روایت سے اس کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ سب سے پہلے گندگی صاف کی جائے، یعنی استنجا کیا جائے، اس کے بعد نماز پڑھی جائے۔ صرف سر کا مسح نہیں ہو گا۔ اس کی بجائے تین چلو پانی سر میں ڈالا جائے گا اور پاؤں بھی غسل کرنے کے بعد آخر میں دھوئے جائیں گے، لیکن یہ ضروری نہیں بلکہ شروع میں بھی دھوئے جاسکتے ہیں جبکہ بعد میں پاؤں کے آلودہ ہونے کا خدشہ نہ ہو۔ واللہ اعلم۔ مزید دیکھیے، حدیث 254 اور اس کے فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 418   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 419  
´شرمگاہ دھونے کے بعد زمین پر ہاتھ ملنے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرتے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے، اور اپنی شرمگاہ دھوتے، پھر زمین پر اپنا ہاتھ مارتے، پھر اسے ملتے، پھر دھوتے، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے، پھر اپنے سر اور باقی جسم پر پانی ڈالتے، پھر وہاں سے ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوتے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 419]
419۔ اردو حاشیہ:
➊ اگرچہ استنجا کرنے سے شرم گاہ کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی صاف ہو جاتا ہے مگر چونکہ ہاتھ افضل جزو ہے۔ نماز، قرأت قرآن اور کھانے پکانے وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے، لہٰذا اس کی خصوصی صفائی کرنی چاہیے، یعنی اسے مٹی یا صابن وغیرہ سے مل کر اچھی طرح دھویا جائے۔
➋ مٹی نجاست کی بو اور چکناہٹ وغیرہ کو ختم کرتی ہے، اس لیے استنجا کے بعد ہاتھ کو مٹی سے ملنا چاہیے۔ آج کل صابن یہی کام کر سکتا ہے۔ مزید دیکھیے حدیث254 اور اس کے فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 419   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 428  
´غسل میں اعضاء کو ایک ایک بار دھونے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنابت کا غسل کیا، تو آپ نے اپنی شرمگاہ کو دھویا، اور زمین یا دیوار پر اپنا ہاتھ رگڑا، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کیا، پھر اپنے سر اور پورے جسم پر پانی بہایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 428]
428۔ اردو حاشیہ: غسل جنابت میں شرط یہ ہے کہ جسم کا کوئی حصہ خشک نہ رہے، خواہ پانی جسم پر ایک دفعہ ڈالا جائے یا زیادہ دفعہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 428   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 254  
´غسل کی جگہ سے ہٹ کر دونوں پاؤں دھونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میری خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل جنابت کا پانی لا کر رکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین بار اپنے دونوں پہونچے دھوئے، پھر اپنا داہنا ہاتھ برتن میں داخل کیا تو اس سے اپنی شرمگاہ پر پانی ڈالا، پھر اسے اپنے بائیں ہاتھ سے دھویا، پھر اپنے بائیں ہاتھ کو زمین پر مارا اور اسے زور سے ملا، پھر اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کیا، پھر اپنے سر پر تین لپ بھربھر کر ڈالا، پھر اپنے پورے جسم کو دھویا، پھر آپ اپنی جگہ سے الگ ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے، ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر میں تولیہ لے کر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 254]
254۔ اردو حاشیہ:
➊ مٹی پر ہاتھ رگڑنا بدبو اور لیس کو ختم کرتا ہے اور آلودگی سے وسوسے کو بھی دور کر دیتا ہے، لہٰذا استنجے کے بعد یہ مستحب ہے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں فرش کچے ہوتے تھے، لہٰذا غسل کا پانی پاؤں میں جمع ہو جاتا تھا۔ اسی جگہ پاؤں دھونے میں کوئی فائدہ نہ تھا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف ہٹ کر پاؤں دھوتے تھے، البتہ اگر پانی جمع نہ ہوتا ہو تو اسی جگہ پاؤں دھوئے جا سکتے ہیں۔
➌ غسل یا وضو کے بعد رومال استعمال کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا رومال پیش کرنا، اس کے جواز کی دلیل ہے کہ آپ کے گھر میں رومال تھا۔ باقی رہا آپ کا واپس کرنا تو وہ کسی اور وجہ سے ہو گا، مثلاً: آپ چاہتے ہوں گے کہ پانی کچھ دیر جسم پر رہے تاکہ ٹھنڈک محسوس ہو، وغیرہ۔
➍ رومال پانی کے ساتھ ساتھ میل کچیل کو بھی اچھی طرح صاف کر دیتا ہے اور یہی غسل سے مطلوب ہے، نیز غسل کے بعد پانی کا جسم پر رہنا شرعاً مطلوب نہیں اور یہ رہ بھی نہیں سکتا، ہوا یا کپڑوں سے جلد یا بدیر خشک ہو ہی جائے گا۔
➎ جو شخص ٹب وغیرہ سے چلو بھر کر پانی لینا چاہے، اسے چاہیے کہ اپنی ہتھیلیاں پہلے دھو لے تاکہ پانی آلودہ نہ ہو۔
➏ شرم گاہ دھونے کے لیے دائیں ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈالنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 254   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث467  
´وضو اور غسل کے بعد رومال استعمال کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت کر چکے تو میں آپ کے پاس ایک کپڑا لائی، آپ نے اسے واپس لوٹا دیا اور (بدن سے) پانی جھاڑنے لگے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 467]
اردو حاشہ:
نبیﷺ نے کپڑا اس لیے واپس کردیا کہ اسے ضروری نہ سمجھ لیا جائے تاکہ اس سے امت کے لیے مشکل نہ پیدا ہو، پھر کسی موقع پر ایک آدمی کے لیے بدن پونچھنے کے لیے الگ کپڑا موجود نہ ہوتو وہ حرج محسوس کرے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 467   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:265  
265. حضرت میمونہ بنت حارث‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انهوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا اور پردہ کر دیا۔ آپ نے اپنے (دائیں ہاتھ سے بائیں) ہاتھ پر پانی ڈالا، پھر اسے ایک یا دو مرتبہ دھویا۔ حضرت سلیمان اعمش کہتےہیں: مجھے یاد نہیں، سالم نے تیسری مرتبہ کا ذکر کیا یا نہیں۔ پھر آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور اپنی شرمگاہ کو دھویا، پھر زمین یا دیوار سے اپنا ہاتھ رگڑا۔ پھر آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا، اور اپنے چہرہ مبارک اور ہاتھوں کو دھویا اور سر کو دھویا، پھر بدن پر پانی بہایا۔ اس کے بعد ایک طرف ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ بعد ازاں میں نے ایک کپڑا دیا لیکن آپ نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ فرمایا اور اس کے لینے کا ارادہ نہیں فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:265]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے مسئلہ موالات بیان کیا ہے، یعنی اعضائے وضو اور غسل کو پے درپے دھونا ضروری نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ جواز تفریق ہی امام شافعی ؒ کا قول جدید ہے جس کے لیے بایں طور استدلال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اعضاء کا دھونا فرض کیا ہے جو شخص بھی اس امر کی تعمیل کرے گا وہ فرض کی ادائیگی سے سبکدوش ہو جائےگا، خواہ تفریق سے کرے یا موالات سے۔
امام بخاری ؒ نے اس کی تائید حضرت ابن عمر ؓ کے عمل سے بھی کر دی ہے۔
یہی موقف ابن مسیب، عطاء اور ایک جماعت کا ہے۔
امام مالک ؒ اور حضرت ربیعہ ؒ کہتے ہیں کہ جو دانستہ تفریق کرے گا، اس پر وضو اور غسل کا اعادہ ہو گا اور جو بھول کر ایسا کرے گا، اسے دوبارہ وضو یا غسل کرنے کی ضرورت نہیں۔
امام مالک ؒ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ اگر تفریق تھوڑے وقفے کی ہے تو بنا کرے، اگر لمبے وقفے کی ہے تو اعادہ کرے۔
امام اوزاعی اور قتادہ کہتے ہیں کہ اگر تفریق اس قدر ہے کہ اعضاء خشک ہو جائیں تو اعادہ ہے۔
بصورت دیگر نہیں۔
امام نخعی ؒ نے غسل میں تو تفریق کی اجازت دی ہے، مگر وضو میں نہیں۔
مذاہب کی یہ تفصیل ابن منذر ؒ نے بیان کی ہے۔
انھوں نے مزید فرمایا کہ جس نے اس معاملے میں اعضاء کے خشک ہونے کی حد كو فاصل قراردیا اس کے پاس کوئی دلیل نہیں۔
(محلی ابن حزم: 69/2)

اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آغاز غسل میں وضو فرمایا، لیکن پاؤں نہیں دھوئے، پھر غسل فرمایا اس کے بعد جائے غسل سے الگ ہو کر پاؤں دھوئے۔
اس سے معلوم ہوا اعضائے وضو میں موالات ضروری نہیں، بلکہ تفریق جائز ہے۔
اس پر یہ اعتراض ہو تا ہے کہ حدیث اور اثر میں صرف وضو کے متعلق تفریق کا جواز ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں وضو کے ساتھ غسل کو بھی شامل فرمایا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ موالات و تفریق کے متعلق وضو اور غسل کی حیثیت یکساں ہے جو حضرات موالات کے قائل ہیں، مثلاً:
امام مالک ؒ وغیرہ وہ وضو اور غسل دونوں میں موالات کو شرط قراردیتے ہیں اور جن کے نزدیک موالات ضروری نہیں، وہ دونوں جگہ اسے غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔
صرف امام نخعی ؒ نے تفریق و موالات کے سلسلے میں وضو اور غسل میں فرق کیا ہے۔

حافظ ابن حزم ؒ نے بھی اس کے متعلق مفصل بحث کی ہے، انھوں نے بھی وضو اور غسل میں تفریق کو جائز قراردیا ہے، خواہ درمیان میں کتنا ہی وقفہ ہو جائے اور اس کو امام ابو حنیفہ ؒ، امام شافعی ؒ، امام اوزاعی ؒ اور سفیان ثوری ؒ کا مذہب لکھا ہے۔
پھر احادیث وآثار ذکر کر کے امام مالک ؒ کے موقف کی تردید کی ہے۔
(فتح الباري: 487/1)
علامہ طحاوی ؒ نے اس کے متعلق بڑی عمدۃ بات لکھی ہے کہ اعضاء کا خشک ہو جانا حدث نہیں کہ اسے ناقض وضو قراردیا جائے۔
اگر وضو کرنے کے بعد اعضاء خشک ہونے سے وضو نہیں ٹوٹتا تو دوران وضو میں اعضاء کا خشک ہو جانا کیونکر ناقض وضو ہو سکتا ہے۔
(محلی ابن حزم: 68/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 265