صحيح البخاري
كِتَاب الشُّرُوطِ -- کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان
17. بَابُ الْمُكَاتَبِ، وَمَا لاَ يَحِلُّ مِنَ الشُّرُوطِ الَّتِي تُخَالِفُ كِتَابَ اللَّهِ:
باب: مکاتب کا بیان اور جو شرطیں ناجائز اور کتاب اللہ کے مخالف ہیں ان کا بیان۔
وَقَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي الْمُكَاتَبِ: شُرُوطُهُمْ بَيْنَهُمْ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ، أَوْ عُمَرُ: كُلُّ شَرْطٍ خَالَفَ كِتَابَ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنِ اشْتَرَطَ مِائَةَ شَرْطٍ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَيُقَالُ عَنْ كِلَيْهِمَا، عَنْ عُمَرَ، وَابْنِ عُمَرَ.
اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے مکاتب کے بارے میں کہا کہ ان کی (یعنی مکاتب اور اس کے مالک کی) جو شرطیں ہوں وہ معتبر ہوں گی اور ابن عمر یا عمر رضی اللہ عنہ نے (راوی کو شبہ ہے) کہا کہ ہر وہ شرط جو کتاب اللہ کے مخالف ہو وہ باطل ہے خواہ ایسی سو شرطیں بھی لگائی جائیں۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہما دونوں سے یہ قول مروی ہے۔
حدیث نمبر: 2735
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: أَتَتْهَا بَرِيرَةُ تَسْأَلُهَا فِي كِتَابَتِهَا، فَقَالَتْ: إِنْ شِئْتِ أَعْطَيْتُ أَهْلَكِ وَيَكُونُ الْوَلَاءُ لِي، فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَّرْتُهُ ذَلِكَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ابْتَاعِيهَا فَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ:" مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلَيْسَ لَهُ وَإِنِ اشْتَرَطَ مِائَةَ شَرْطٍ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا۔ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ یحییٰ بن سعید انصاری سے ‘ ان سے عمرہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مکاتبت کے سلسلے میں ان سے مدد مانگنے آئیں تو انہوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو تمہارے مالکوں کو (پوری قیمت) دے دوں اور تمہاری ولاء میرے ہو گی۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں تو خرید لے اور آزاد کر دے۔ ولاء تو بہرحال اسی کی ہو گی جو آزاد کر دے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا کوئی پتہ (دلیل، سند) کتاب اللہ میں نہیں ہے ‘ جس نے بھی کوئی ایسی شرط لگائی جس کا پتہ (دلیل، سند) کتاب اللہ میں نہ ہو تو خواہ ایسی سو شرطیں لگا لے ان سے کچھ فائدہ نہ اٹھائے گا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2735  
2735. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ان کے پاس حضرت بریرہ ؓ آئیں اور ان سے بدل کتابت کے متعلق تعاون کا سوال کیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اگر تو چاہے تو میں تیرے مالکان کو بدل کتابت ادا کر دیتی ہوں۔ لیکن ولا میرے لیے ہو گی۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اسے خرید کر آزاد کردو۔ ولا تو اسی کے لیے ہے جو آزاد کرے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔ جو ایسی شرطیں عائد کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں؟ آگاہ رہو! جس نے کوئی ایسی شرط لگائی جس کی بنیاد کتاب اللہ میں نہیں، وہ (شرط) قابل اعتبار ہی نہیں اگرچہ ایسی سو شرطیں لگائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2735]
حدیث حاشیہ:
حضرت بریرہ ؓکے آقا آزادی کے بعد ان کی ولاءکو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے اور اسی شرط پر وہ بریرہ ؓ کو حضرت عائشہ ؓ کی پیشکش کے مطابق آزاد کرنا چاہتے تھے۔
ان کی یہ شرط باطل تھی کیونکہ ایسے لونڈی غلاموں کی ولاءان کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو اپنا روپیہ خرچ کرکے ان کے آزاد کرانے والے ہیں۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی شخص کوئی غلط شرط لگائے تو لگاتارہے شرعاً وہ شرط باطل ہوگی اور قانون اسے تسلیم نہیں کرے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2735   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2735  
2735. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ان کے پاس حضرت بریرہ ؓ آئیں اور ان سے بدل کتابت کے متعلق تعاون کا سوال کیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اگر تو چاہے تو میں تیرے مالکان کو بدل کتابت ادا کر دیتی ہوں۔ لیکن ولا میرے لیے ہو گی۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اسے خرید کر آزاد کردو۔ ولا تو اسی کے لیے ہے جو آزاد کرے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔ جو ایسی شرطیں عائد کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں؟ آگاہ رہو! جس نے کوئی ایسی شرط لگائی جس کی بنیاد کتاب اللہ میں نہیں، وہ (شرط) قابل اعتبار ہی نہیں اگرچہ ایسی سو شرطیں لگائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2735]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے پہلے امام بخاری ؒ نے ایک عنوان قائم کیا تھا:
(ما يجوز من شروط المكاتب، ومن اشترط شرطا ليس في كتاب الله)
مکاتب کے لیے کون کون سی شرائط جائز ہیں اور جو شخص ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے (صحیح البخاري،المکاتب،باب: 2)
اس مقام پر آپ اس کی تفسیر اس طرح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ شرائط جو کتاب اللہ کے مخالف ہوں ناقابل اعتبار ہیں۔
اور کتاب اللہ سے مراد اس کا حکم ہے جو کبھی نص سے ثابت ہوتا ہے اور کبھی اس سے استنباط کیا جاتا ہے۔
جو حکم اس طرح کا نہ ہو وہ کتاب اللہ کے مخالف ہے، چنانچہ حضرت بریرہ ؓ کے آقا آزادی کے بعد اس کی ولا اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے اور اس شرط کے ساتھ وہ حضرت عائشہ ؓ کی پیشکش کے مطابق اسے آزاد کرنا چاہتے تھے۔
چونکہ یہ شرط کتاب اللہ کے مخالف تھی اس بنا پر اسے باطل قرار دیا گیا۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص غلط شرط لگاتا ہے تو وہ شرعاً باطل ہے۔
قانون اسے تسلیم نہیں کرے گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2735