صحيح البخاري
كِتَاب الشُّرُوطِ -- کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان
18. بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ الاِشْتِرَاطِ وَالثُّنْيَا فِي الإِقْرَارِ:
باب: اقرار میں شرط لگانا یا استثناء کرنا جائز ہے اور ان شرطوں کا بیان۔
وَالشُّرُوطِ الَّتِي يَتَعَارَفُهَا النَّاسُ بَيْنَهُمْ وَإِذَا قَالَ مِائَةٌ إِلَّا وَاحِدَةً أَوْ ثِنْتَيْنِ وَقَالَ ابْنُ عَوْنٍ: عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ رَجُلٌ لِكَرِيِّهِ:" أَرْحِلْ رِكَابَكَ، فَإِنْ لَمْ أَرْحَلْ مَعَكَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا فَلَكَ مِائَةُ دِرْهَمٍ، فَلَمْ يَخْرُجْ، فَقَالَ شُرَيْحٌ: مَنْ شَرَطَ عَلَى نَفْسِهِ طَائِعًا غَيْرَ مُكْرَهٍ فَهُوَ عَلَيْهِ. وَقَالَ أَيُّوبُ: عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، إِنَّ رَجُلًا بَاعَ طَعَامًا، وَقَالَ: إِنْ لَمْ آتِكَ الْأَرْبِعَاءَ فَلَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بَيْعٌ، فَلَمْ يَجِئْ، فَقَالَ شُرَيْحٌ لِلْمُشْتَرِي: أَنْتَ أَخْلَفْتَ، فَقَضَى عَلَيْهِ".
‏‏‏‏ جو معاملات عموماً لوگوں میں رائج ہیں اور اگر کوئی یوں کہے کہ مجھ پر فلاں کے سو درہم نکلتے ہیں مگر ایک یا دو اور ابن عون نے ابن سیرین سے نقل کیا کہ کسی نے اونٹ والے سے کہا تو اپنے اونٹ اندر لا کر باندھ دے اگر میں تمہارے ساتھ فلاں دن تک نہ جا سکا تو تم سو درہم مجھ سے وصول کر لینا۔ پھر وہ اس دن تک نہ جا سکا تو قاضی شریح رحمہ اللہ نے کہا کہ جس نے اپنی خوشی سے اپنے اوپر کوئی شرط لگائی اور اس پر کوئی جبر بھی نہیں کیا گیا تھا تو وہ شرط اس کو پوری کرنی ہو گی۔ ایوب نے ابن سیرین رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ کسی شخص نے غلہ بیچا اور خریدار نے کہا کہ اگر تمہارے پاس بدھ کے دن تک نہ آ سکا تو میرے اور تمہارے درمیان بیع باقی نہیں رہے گی۔ پھر وہ اس دن تک نہیں آیا تو شریح رحمہ اللہ نے خریدار سے کہا کہ تو نے وعدہ خلافی کی ہے آپ نے فیصلہ اس کے خلاف کیا۔