سنن ترمذي
كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
23. باب مَا جَاءَ مَنْ لاَ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ
باب: زکاۃ لینا کس کس کے لیے جائز نہیں؟
حدیث نمبر: 653
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ السَّلُولِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ، أَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ فَأَخَذَ بِطَرَفِ رِدَائِهِ فَسَأَلَهُ إِيَّاهُ فَأَعْطَاهُ وَذَهَبَ فَعِنْدَ ذَلِكَ حَرُمَتِ الْمَسْأَلَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ إِلَّا لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ غُرْمٍ مُفْظِعٍ، وَمَنْ سَأَلَ النَّاسَ لِيُثْرِيَ بِهِ مَالَهُ كَانَ خُمُوشًا فِي وَجْهِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَرَضْفًا يَأْكُلُهُ مِنْ جَهَنَّمَ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيُقِلَّ وَمَنْ شَاءَ فَلْيُكْثِرْ ".
حبشی بن جنادہ سلولی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں فرماتے سنا آپ عرفہ میں کھڑے تھے، آپ کے پاس ایک اعرابی آیا اور آپ کی چادر کا کنارا پکڑ کر آپ سے مانگا، آپ نے اسے دیا اور وہ چلا گیا، اس وقت مانگنا حرام ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مالدار کے لیے مانگنا جائز نہیں نہ کسی ہٹے کٹے صحیح سالم آدمی کے لیے سوائے جان لیوا فقر والے کے اور کسی بھاری تاوان میں دبے شخص کے۔ اور جو لوگوں سے اس لیے مانگے کہ اس کے ذریعہ سے اپنا مال بڑھائے تو یہ مال قیامت کے دن اس کے چہرے پر خراش ہو گا۔ اور وہ جہنم کا ایک گرم پتھر ہو گا جسے وہ کھا رہا ہو گا، تو جو چاہے اسے کم کر لے اور جو چاہے زیادہ کر لے ا؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3291) (صحیح) (سند میں مجالد ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر حدیث صحیح لغیرہ ہے، صحیح الترغیب 802، وتراجع الألبانی 557)»

وضاحت: ا؎: مانگنے کی عادت اختیار کرنے والوں کو اس وعید پر غور وفکر کرنا چاہیئے، بالخصوص دین حق کی اشاعت و دعوت کا کام کرنے والے داعیان و مبلغین کو۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (3 / 384) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (877) ، ضعيف الجامع الصغير (1781) //
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 653  
´زکاۃ لینا کس کس کے لیے جائز نہیں؟`
حبشی بن جنادہ سلولی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں فرماتے سنا آپ عرفہ میں کھڑے تھے، آپ کے پاس ایک اعرابی آیا اور آپ کی چادر کا کنارا پکڑ کر آپ سے مانگا، آپ نے اسے دیا اور وہ چلا گیا، اس وقت مانگنا حرام ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مالدار کے لیے مانگنا جائز نہیں نہ کسی ہٹے کٹے صحیح سالم آدمی کے لیے سوائے جان لیوا فقر والے کے اور کسی بھاری تاوان میں دبے شخص کے۔ اور جو لوگوں سے اس لیے مانگے کہ اس کے ذریعہ سے اپنا مال بڑھائے تو یہ مال قیامت کے دن اس کے چہرے پر خراش ہو گا۔ اور وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 653]
اردو حاشہ: 1 ؎:
مانگنے کی عادت اختیار کرنے والوں کو اس وعید پر غور و فکر کرنا چاہئے،
بالخصوص دینِ حق کی اشاعت و دعوت کا کام کرنے والے داعیان و مبلغین کو۔

نوٹ:
(سند میں مجالد ضعیف راوی ہے،
لیکن شواہد کی بنا پر حدیث صحیح لغیرہ ہے،
صحیح الترغیب: 802،
وتراجع الألبانی: 557)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 653