سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
5. باب مَا جَاءَ أَنَّ الصَّوْمَ لِرُؤْيَةِ الْهِلاَلِ وَالإِفْطَارَ لَهُ
باب: چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور دیکھ کر روزہ بند کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 688
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَصُومُوا قَبْلَ رَمَضَانَ، صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ حَالَتْ دُونَهُ غَيَايَةٌ فَأَكْمِلُوا ثَلَاثِينَ يَوْمًا ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي بَكْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان سے پہلے ۱؎ روزہ نہ رکھو، چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اور دیکھ کر ہی بند کرو، اور اگر بادل آڑے آ جائے تو مہینے کے تیس دن پورے کرو ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے اور کئی سندوں سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے۔
۲- اس باب میں ابوہریرہ، ابوبکرہ اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصیام 7 (2327)، سنن النسائی/الصیام 12 (2126)، (تحفة الأشراف: 6105)، وأخرجہ موطا امام مالک/الصیام 1 (3)، و مسند احمد (1/221)، وسنن الدارمی/الصوم1 (1725) من غیر ہذا الطریق عنہ (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: رمضان سے پہلے سے مراد شعبان کا دوسرا نصف ہے، مطلب یہ ہے کہ ۱۵ شعبان کے بعد نفلی روزے نہ رکھے جائیں تاکہ رمضان کے فرض روزوں کے لیے اس کی قوت و توانائی برقرار رہے۔
۲؎ یعنی بادل کی وجہ سے مطلع صاف نہ ہو اور ۲۹ شعبان کو چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کر کے رمضان کے روزے شروع کئے جائیں، اسی طرح اگر ۲۹ رمضان کو چاند نظر نہ آئے تو رمضان کے تیس روزے پورے کر کے عید الفطر منائی جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2016)
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 688  
´چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور دیکھ کر روزہ بند کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان سے پہلے ۱؎ روزہ نہ رکھو، چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اور دیکھ کر ہی بند کرو، اور اگر بادل آڑے آ جائے تو مہینے کے تیس دن پورے کرو ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 688]
اردو حاشہ:
1؎:
رمضان سے پہلے سے مراد شعبان کا دوسرا نصف ہے،
مطلب یہ ہے کہ 15 شعبان کے بعد نفلی روزے نہ رکھے جائیں تاکہ رمضان کے فرض روزے کے لیے اس کی قوت و توانائی برقرار رہے۔

2؎:
یعنی بادل کی وجہ سے مطلع صاف نہ ہو اور 29 شعبان کو چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کر کے رمضان کے روزے شروع کئے جائیں،
اسی طرح اگر 29 رمضان کو چاند نظر نہ آئے تو رمضان کے تیس روزے پورے کر کے عیدالفطر منائی جائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 688   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2327  
´انتیس تاریخ کو بادل ہوں تو پورے تیس روزے رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان سے ایک یا دو دن پہلے ہی روزے رکھنے شروع نہ کر دو، ہاں اگر کسی کا کوئی معمول ہو تو رکھ سکتا ہے، اور بغیر چاند دیکھے روزے نہ رکھو، پھر روزے رکھتے جاؤ، (جب تک کہ شوال کا) چاند نہ دیکھ لو، اگر اس کے درمیان بدلی حائل ہو جائے تو تیس کی گنتی پوری کرو اس کے بعد ہی روزے رکھنا چھوڑو، اور مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: حاتم بن ابی صغیرہ، شعبہ اور حسن بن صالح نے سماک سے پہلی حدیث کے مفہوم کے ہم معنی روایت کیا ہے لیکن ان ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2327]
فوائد ومسائل:
یہ روایت ضعیف ہے، لیکن بعض کے نزدیک صحیح ہے، کیونکہ یہ باتیں صحیح روایات میں بیان ہوئی ہیں۔
رمضان شروع ہونے سے ایک دو دن پہلے اگر کوئی قضا یا نذر کا روزہ پورا کرنا چاہتا ہو یا اس کی عادت ہو کہ سوموار اور جمعرات کے روزے رکھتا ہو تو رکھ سکتا ہے، یہ استقبالی روزے شمار نہ ہوں گے، کیونکہ یہ اس کے دائمی اور مسلسل عمل کا حصہ ہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2327