سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
11. باب مَا جَاءَ الصَّوْمُ يَوْمَ تَصُومُونَ وَالْفِطْرُ يَوْمَ تُفْطِرُونَ وَالأَضْحَى يَوْمَ تُضَحُّونَ
باب: روزہ کا دن وہی ہے جب سب روزہ رکھیں، عیدالفطر کا دن وہی ہے۔
حدیث نمبر: 697
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَخْنَسِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الصَّوْمُ يَوْمَ تَصُومُونَ وَالْفِطْرُ يَوْمَ تُفْطِرُونَ وَالْأَضْحَى يَوْمَ تُضَحُّونَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَفَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: إِنَّمَا مَعْنَى هَذَا أَنَّ الصَّوْمَ وَالْفِطْرَ مَعَ الْجَمَاعَةِ وَعُظْمِ النَّاسِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صیام کا دن وہی ہے جس دن تم سب روزہ رکھتے ہو اور افطار کا دن وہی ہے جب سب عید الفطر مناتے ہو اور اضحٰی کا دن وہی ہے جب سب عید مناتے ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- بعض اہل علم نے اس حدیث کی تشریح یوں کی ہے کہ صوم اور عید الفطر اجتماعیت اور سواد اعظم کے ساتھ ہونا چاہیئے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12997) وأخرجہ کل من: سنن ابی داود/ الصوم5 (2324) وسنن ابن ماجہ/الصیام9 (1660) من غیر ہذا الطریق (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: امام ترمذی کا اس حدیث پر عنوان لگانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے اور سارے کے سارے لوگ غور و خوض کرنے کے بعد ایک فیصلہ کر لیں تو اسی کے حساب سے رمضان اور عید میں کیا جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1660)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1660  
´عید کے دونوں مہینوں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عید الفطر وہ دن ہے جس میں تم لوگ روزہ توڑ دیتے ہو، اور عید الاضحی وہ دن ہے جس میں تم لوگ قربانی کرتے ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1660]
اردو حاشہ:
فائدہ:
عید اجتماعی عبادت ہے۔
اس لئے اگر کسی شخص کو چاند ہونے یا نہ ہونے میں شک ہو تب بھی اسے عام مسلمانوں کے ساتھ ہی عید منانى چاہیے اسی لئے چاند کے ثبوت کےلئے کثیر تعداد کی شرط نہیں رکھی گئی بلکہ دو قابل اعتماد افراد کی گواہی پراعتماد کیا گیا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1660   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 697  
´روزہ کا دن وہی ہے جب سب روزہ رکھیں، عیدالفطر کا دن وہی ہے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صیام کا دن وہی ہے جس دن تم سب روزہ رکھتے ہو اور افطار کا دن وہی ہے جب سب عید الفطر مناتے ہو اور اضحٰی کا دن وہی ہے جب سب عید مناتے ہو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 697]
اردو حاشہ:
1؎:
امام ترمذی کا اس حدیث پر عنوان لگانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے اور سارے کے سارے لوگ غور و خوض کرنے کے بعد ایک فیصلہ کر لیں تو اسی کے حساب سے رمضان اور عید میں کیا جائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 697