سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
29. باب مَا جَاءَ فِي السِّوَاكِ لِلصَّائِمِ
باب: روزہ دار کے مسواک کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 725
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَا أُحْصِي يَتَسَوَّكُ وَهُوَ صَائِمٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِالسِّوَاكِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا، إِلَّا أَنَّ بَعْضَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا السِّوَاكَ لِلصَّائِمِ بِالْعُودِ وَالرُّطَبِ، وَكَرِهُوا لَهُ السِّوَاكَ آخِرَ النَّهَارِ، وَلَمْ يَرَ الشَّافِعِيُّ بِالسِّوَاكِ بَأْسًا أَوَّلَ النَّهَارِ وَلَا آخِرَهُ، وَكَرِهَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق السِّوَاكَ آخِرَ النَّهَارِ.
عامر بن ربیعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو روزہ کی حالت میں اتنی بار مسواک کرتے دیکھا کہ میں اسے شمار نہیں کر سکتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عامر بن ربیعہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔
۳- اسی حدیث پر اہل علم کا عمل ہے۔ یہ لوگ روزہ دار کے مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ۱؎ سمجھتے، البتہ بعض اہل علم نے روزہ دار کے لیے تازی لکڑی کی مسواک کو مکروہ قرار دیا ہے، اور دن کے آخری حصہ میں بھی مسواک کو مکروہ کہا ہے۔ لیکن شافعی دن کے شروع یا آخری کسی بھی حصہ میں مسواک کرنے میں حرج محسوس نہیں کرتے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ نے دن کے آخری حصہ میں مسواک کو مکروہ قرار دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصیام 26 (2364)، (تحفة الأشراف: 5034) (ضعیف) (سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف راوی ہے)»

وضاحت: ۱؎: خواہ زوال سے پہلے ہو یا زوال کے بعد، خواہ تازی لکڑی سے ہو، یا خشک، یہی اکثر اہل علم کا قول ہے اور یہی راجح۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (68) //، ضعيف أبي داود (511 / 2364) ، المشكاة (2009) //
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 725  
´روزہ دار کے مسواک کرنے کا بیان۔`
عامر بن ربیعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو روزہ کی حالت میں اتنی بار مسواک کرتے دیکھا کہ میں اسے شمار نہیں کر سکتا۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 725]
اردو حاشہ:
1؎:
خواہ زوال سے پہلے ہو یا زوال کے بعد،
خواہ تازی لکڑی سے ہو،
یا خشک،
یہی اکثراہل علم کا قول ہے اور یہی راجح۔

نوٹ:
(سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف راوی ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 725   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2364  
´روزہ دار کے مسواک کرنے کا بیان۔`
عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روزے کی حالت میں مسواک کرتے دیکھا، جسے میں نہ گن سکتا ہوں، نہ شمار کر سکتا ہوں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2364]
فوائد ومسائل:
(1) روزہ رکھ کر مسواک کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔
مسواک خواہ تازہ ہو یا خشک، ہر طرح سے جائز ہے۔
اور ظاہر ہے کہ تازہ مسواک کی رطوبت کو تھوکنا لازمی ہو گا جب کہ اس کے ذائقے کا منہ میں باقی رہ جانا معاف ہے۔
جہاں تک ٹوتھ پیسٹ کا استعمال کا سوال ہے، تع بعض علماء اسے روزے کی حالت میں مکروہ قرار دیتے ہیں۔
لیکن ایسا سمجھنا صحیح نہیں ہے، اس کا حکم بھی مسواک سے مختلف نہیں ہے۔
اگر برش کے استعمال کے دوران میں، مسواک کرتے ہوئے یا وضو کرتے ہوئے دانتوں سے معمولی مقدار میں خون نکل آئے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے (باب سوال الرطب واليابس للصائم) کا عنوان قائم کر کے مندرجہ بالا روایت کو تعلیقا بیان فرمایا ہے۔

(2) دوسری حدیث جس میں ہے کہ روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بھی طیب ہوتی ہے۔
(صحيح البخاري‘ الصوم‘ حديث:1894‘ و صحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث:1151) تو اس کا مفہوم منہ کو گندہ رکھنا نہیں بلکہ اس میں روزے دار کا اللہ کے ہاں محبوب ہونا بیان ہوا ہے اور یہ کہ اس کے معدہ کے خالی ہونے کی وجہ سے اس کے منہ میں جو نامناسب سی بو پیدا ہو جاتی ہے، وہ بھی اللہ کے ہاں پسندیدہ ہے۔
اور ہر حال اور کیفیت میں منہ کو صاف ستھرا رکھنا مطلوب ہے اور روزہ دار ہر حال میں اللہ کا محبوب ہے۔

(3) اس حدیث کی اسنادی بحث کے لیے دیکھئے: (إرواء الغلیل، حدیث: 68)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2364