سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
44. باب مَا جَاءَ فِي صَوْمِ يَوْمِ الاِثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ
باب: سوموار (دوشنبہ) اور جمعرات کے دن روزہ رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 747
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ، فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي هَذَا الْبَاب حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اعمال سوموار (دوشنبہ) اور جمعرات کو اعمال (اللہ کے حضور) پیش کئے جاتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرا عمل اس حال میں پیش کیا جائے کہ میں روزے سے ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث اس باب میں حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصیام 42 (1740)، (تحفة الأشراف: 12746)، وأخرجہ: مسند احمد (2/329) (صحیح) (سند میں محمد بن رفاعہ لین الحدیث راوی ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج المشكاة / التحقيق الثانى (2056) ، التعليق الرغيب (2 / 84) ، الإرواء (949)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1740  
´دوشنبہ (سوموار) اور جمعرات کا روزہ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے، تو پوچھا گیا: اللہ کے رسول! آپ دوشنبہ اور جمعرات کو روزہ رکھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو شنبہ اور جمعرات کو اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو بخش دیتا ہے سوائے دو ایسے لوگوں کے جنہوں نے ایک دوسرے سے قطع تعلق کر رکھا ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ان دونوں کو چھوڑو یہاں تک کہ باہم صلح کر لیں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1740]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سوموار اور جمعرات کو نفل روزہ رکھنے کا اہتمام کرنا چا ہیے۔

(2)
روزہ ایک بڑا نیک عمل ہے جس کی برکت سے مغفرت کی زیادہ امید کی جا سکتی ہے۔

(3)
مسلمانو ں کا ایک دوسرے سے بلا وجہ ناراض رہنا بڑا گنا ہ ہے
(4)
کسی دینی وجہ سے ناراضی رکھنا اور اہل و عیال کو تنبیہ کرنے کے لئے ناراض ہو جانا اس وعید میں شامل نہیں۔

(5)
بعض لوگوں نے سوموار کے روزے سے عید میلاد کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے سوموار کے دن پیدا ہونے پر علمائے کرام کا اتفاق ہے لیکن استدالال محل نظر ہے اس لئے کہ اس دن روزہ رکھنا سنت ہے نہ کہ عید منانا اور عید روزے کے منافی ہے نیز ہفت روزہ عید پر سالانہ عید کو قیاس کرنا درست نہیں۔
کیونکہ ربیع الاول رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہر سال آتا رہا ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس مہینے میں عید نہیں منائی۔
مزید تفصیل کے لئے دیکھیے: (عید میلاد کی تار یخی و شرعی حيثیت اور مجوزین کے دلائل کا جائزہ از حا فظ صلاح الد ین یوسف رحمۃ اللہ علیہ)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1740   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 747  
´سوموار (دوشنبہ) اور جمعرات کے دن روزہ رکھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اعمال سوموار (دوشنبہ) اور جمعرات کو اعمال (اللہ کے حضور) پیش کئے جاتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرا عمل اس حال میں پیش کیا جائے کہ میں روزے سے ہوں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 747]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں محمد بن رفاعہ لین الحدیث راوی ہے،
لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 747