سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
53. باب مَا جَاءَ فِي صِيَامِ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ
باب: شوال کے چھ دن کے روزوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 759
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ ". وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَثَوْبَانَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي أَيُّوبَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدِ اسْتَحَبَّ قَوْمٌ صِيَامَ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: هُوَ حَسَنٌ هُوَ مِثْلُ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: وَيُرْوَى فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ وَيُلْحَقُ هَذَا الصِّيَامُ بِرَمَضَانَ، وَاخْتَارَ ابْنُ الْمُبَارَكِ أَنْ تَكُونَ سِتَّةَ أَيَّامٍ فِي أَوَّلِ الشَّهْرِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: إِنْ صَامَ سِتَّةَ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ مُتَفَرِّقًا فَهُوَ جَائِزٌ، قَالَ: وَقَدْ رَوَى عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، وَسَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا. وَرَوَى شُعْبَةُ، عَنْ وَرْقَاءَ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، وَسَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ هُوَ أَخُو يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ. حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، عَنْ إِسْرَائِيلَ أَبِي مُوسَى، عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، قَالَ: كَانَ إِذَا ذُكِرَ عِنْدَهُ صِيَامُ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ، فَيَقُولُ: وَاللَّهِ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ بِصِيَامِ هَذَا الشَّهْرِ عَنِ السَّنَةِ كُلِّهَا.
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہی صوم الدھر ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوایوب رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- عبدالعزیز بن محمد نے اس حدیث کو بطریق: «صفوان بن سليم بن سعيد عن عمر بن ثابت عن أبي أيوب عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے،
۳- شعبہ نے یہ حدیث بطریق: «ورقاء بن عمر عن سعد بن سعيد» روایت کی ہے، سعد بن سعید، یحییٰ بن سعید انصاری کے بھائی ہیں،
۴- بعض محدثین نے سعد بن سعید پر حافظے کے اعتبار سے کلام کیا ہے۔
۵- حسن بصری سے روایت ہے کہ جب ان کے پاس شوال کے چھ دن کے روزوں کا ذکر کیا جاتا تو وہ کہتے: اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ اس ماہ کے روزوں سے پورے سال راضی ہے،
۶- اس باب میں جابر، ابوہریرہ اور ثوبان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۷- ایک جماعت نے اس حدیث کی رو سے شوال کے چھ دن کے روزوں کو مستحب کہا ہے،
۸- ابن مبارک کہتے ہیں: یہ اچھا ہے، یہ ہر ماہ تین دن کے روزوں کے مثل ہیں،
۹- ابن مبارک کہتے ہیں: بعض احادیث میں مروی ہے کہ یہ روزے رمضان سے ملا دیئے جائیں،
۱۰- اور ابن مبارک نے پسند کیا ہے کہ یہ روزے مہینے کے ابتدائی چھ دنوں میں ہوں،
۱۱- ابن مبارک سے نے یہ بھی کہا: اگر کوئی شوال کے چھ دن کے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے تو یہ بھی جائز ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصیام 29 (1164)، سنن ابی داود/ الصیام 58 (2433)، سنن ابن ماجہ/الصیام 33 (1716)، سنن الدارمی/الصوم 44 (1795)، (تحفة الأشراف: 3482) (حسن صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ہے کے اصول کے مطابق رمضان کے روزے دس مہینوں کے روزوں کے برابر ہوئے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے اگر رکھ لیے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابر ہوں گے، اس طرح اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب مل جائے گا، جس کا یہ مستقل معمول ہو جائے اس کا شمار اللہ کے نزدیک ہمیشہ روزہ رکھنے والوں میں ہو گا، شوال کے یہ روزے نفلی ہیں انہیں متواتر بھی رکھا جا سکتا ہے اور ناغہ کر کے بھی، تاہم شوال ہی میں ان کی تکمیل ضروری ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (1716)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1716  
´ماہ شوال کے چھ روزوں کا بیان۔`
ابوایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کا روزہ رکھا، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے، تو وہ پورے سال روزے رکھنے کے برابر ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1716]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہ مسلمانو ں پر اللہ کا خاص احسان ہے کہ اس کی رضا کے لئے جو عمل کیا جائے اس کا ثواب بہت زیادہ دیتا ہے اس رحمت الہی سے فا ئدہ اٹھانے کے لئے فرضی عبادت کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات بھی ادا کرتے رہنا چاہیے-
(2)
اکثر علماء کا خیال ہے کہ یہ روزے عید کے دوسرے دن سے شروع کرنا ضروری نہیں اور مسلسل رکھنا بھی ضروری نہیں تا ہم ساتھ ہی رکھ لینے میں آسانی ہے
(3)
بعض جگہ عوام میں مشہور ہے کہ عید کے بعد چھ روزے رکھ کر شوال کی آ ٹھ تاریخ کو بھی عید ہوتی ہے بعض لوگ اس دن کچھ اہتمام بھی کرتے ہیں یہ خیال بے اصل ہے لہٰذا اس سے اجتناب کر نا چاہیے
(4)
زمانے بھر یعنی سال بھر کے روزو ں کا ثواب اس طرح واضح کیا جا تا ہے کہ حسب قا عدہ ﴿مَن جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُۥ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ﴾  (الأنعام: 160، 6)
 رمضان کے تیس شوال کے چھ دن کل چھتیس دن ہو ئے اور دس گناہ ثواب سے تین سو ساٹھ ہو گئے اور تقریبا یہی تعداد سا ل کے دنوں کی ہو تی ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1716   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 759  
´شوال کے چھ دن کے روزوں کا بیان۔`
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہی صوم الدھر ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 759]
اردو حاشہ:
1؎:
ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ہے کے اصول کے مطابق رمضان کے روزے دس مہینوں کے روزوں کے برابر ہوئے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے اگر رکھ لیے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابر ہوں گے،
اس طرح اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب مل جائے گا،
جس کا یہ مستقل معمول ہو جائے اس کا شمار اللہ کے نزدیک ہمیشہ روزے رکھنے والوں میں ہو گا،
شوّال کے یہ روزے نفلی ہیں انہیں متواتر بھی رکھا جا سکتا ہے اور ناغہ کر کے بھی،
تاہم شوّال ہی میں ان کی تکمیل ضروری ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 759   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2433  
´شوال کے چھ روزوں کا بیان۔`
ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھ روزے شوال کے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2433]
فوائد ومسائل:
(1) اس حدیث میں شش عیدی روزوں کی فضیلت و استحباب کا بیان ہے۔
اور جائز ہے کہ یہ عید کے بعد فورا مسلسل رکھ لیے جائیں یا اس مہینے میں متفق طور پر رکھے جائیں۔

(2) زمانہ بھر یعنی سال بھر کے روزون کا ثواب اس طرح واضح کیا جاتا ہے کہ حسب قاعدہ (مَن جَآءَ بِٱلْحَسَنَةِ فَلَهُۥ عَشْرُ‌ أَمْثَالِهَا) (الانعام:160) رمضان کے تیس اور شوال کے چھ دن کل چھتیس دن ہوئے اور دس گنا ثواب سے تین سو ساٹھ ہو گئے اور تقریبا یہی تعداد سال کے دنوں کی ہوتی ہے۔
واللہ اعلم.
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2433