صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا -- کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
9. بَابُ تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ} :
باب: اللہ تعالیٰ کے (سورۃ نساء میں) یہ فرمانے کی تفسیر کہ حصوں کی تقسیم وصیت اور دین کے بعد ہو گی۔
حدیث نمبر: 2751
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّخْتِيَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالْخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، قَالَ: وَحَسِبْتُ أَنْ قَدْ قَالَ: وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي مَالِ أَبِيهِ".
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی کہا ہم کو یونس نے، انہوں نے زہری سے ‘ انہوں نے کہا مجھ کو سالم نے خبر دی ‘ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے انہوں نے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ حاکم بھی نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھی جائے گی اور غلام اپنے صاحب کے مال کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ مرد اپنے باپ کے مال کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1705  
´امام اور حاکم کی ذمہ داریوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر آدمی نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے، چنانچہ لوگوں کا امیر ان کا نگہبان ہے اور وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے، اسی طرح مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے، غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1705]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جو جس چیز کا ذمہ دار ہے اس سے اس چیز کے متعلق باز پرس بھی ہوگی،
اب یہ ذمہ دار کا کام ہے کہ اپنے متعلق یہ احساس و خیال رکھے کہ اسے اس ذمہ دار ی کا حساب وکتاب بھی دینا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1705   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2928  
´امام (حکمراں) پر رعایا کے کون سے حقوق لازم ہیں؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار سن لو! تم میں سے ہر شخص اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) اس سے اپنی رعایا سے متعلق بازپرس ہو گی ۱؎ لہٰذا امیر جو لوگوں کا حاکم ہو وہ ان کا نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق بازپرس ہو گی اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا ۲؎ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا غلام اپنے آقا و مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، تو (سمجھ لو) تم میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2928]
فوائد ومسائل:
ہر فرد اپنے دائرہ اختیار میں اپنی حدود تک ان سب کا محافظ وذمہ دار ہے۔
لہذا کوئی بھی اپنے دینی و دنیاوی فرائض ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔
یہی احساس ذمہ داری ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کی بنیاد ہے۔


بچوں کی تعلیم وتربیت میں ماں باپ دونوں شریک ہوتے ہیں۔
مگر ماں کی ذمہ داری ایک اعتبار سے زیادہ ہے کہ بچے فطرتا اسی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
اور زیادہ تر اسی کی رعیت اور نگرانی میں رہتے ہیں۔
اس لئے شریعت نے اس کو بچوں پر راعی (نگران) بنایا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2928   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2751  
2751. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو(یہ) فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر نگہبان سے اسکی رعایا کے متعلق سوال ہوگا۔ حاکم وقت نگہبان ہے، اس اسے اس کی رعیت کے متعلق سوا ل کیاجائے گا۔ آدمی اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق باز پرس ہوگی۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق سوا ل ہوگا۔ نوکر اپنے مالک کے مال کا نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ راوی کہتا ہے کہ میرے گمان کے مطابق آپ نے یہ بھی فرمایا: مرد اپنے باپ کے مال کا نگران ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2751]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب العتق میں گزر چکی ہے‘ اس کی مباسبت ترجمہ سے مشکل ہے۔
بعضوں نے کہا ہے غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہوا حالانکہ وہ غلام ہی کا کمایا ہوا ہے تو اس میں مالک اور غلام دونوں کے حق متعلق ہوئے‘ لیکن مالک کا حق مقدم کیا گیا کیونکہ وہ زیادہ قوی ہے۔
اسی طرح قرض اور وصیت میں قرض کو مقدم کیا جائے گا‘ کیونکہ قرض کی ادائیگی فرض ہے اور وصیت ایک قسم کا تبرع یعنی نفل ہے۔
شافعیہ نے کہا کہ ان میں وارث داخل نہ ہوں گے۔
بعضوں نے کہا داخل ہوں گے۔
امام ابو حنیفہ ؒ نے کہا عزیزوں سے محرم ناطہ دار مراد ہوں گے ‘ باپ کی طرف کے ہوں یا ماں کی طرف کے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2751   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2751  
2751. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو(یہ) فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر نگہبان سے اسکی رعایا کے متعلق سوال ہوگا۔ حاکم وقت نگہبان ہے، اس اسے اس کی رعیت کے متعلق سوا ل کیاجائے گا۔ آدمی اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق باز پرس ہوگی۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق سوا ل ہوگا۔ نوکر اپنے مالک کے مال کا نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ راوی کہتا ہے کہ میرے گمان کے مطابق آپ نے یہ بھی فرمایا: مرد اپنے باپ کے مال کا نگران ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2751]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے مطابق غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے، حالانکہ وہ مال غلام ہی کا کمایا ہوا ہے۔
گویا اس مال میں آقا اور غلام دونوں کے حقوق ہیں لیکن مالک کا حق مقدم کیا گیا کیونکہ وہ زیادہ قوی ہے۔
اسی طرح قرض اور وصیت میں قرض کو مقدم کیا جائے گا کیونکہ قرض کی ادائیگی فرض ہے اور وصیت ایک طرح کا نفلی صدقہ ہے، اسے قرض کے بعد ادا کرنا ہو گا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2751