سنن ترمذي
كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
37. باب مَا جَاءَ فِي تَقْبِيلِ الْحَجَرِ
باب: حجر اسود کو بوسہ لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 861
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَرَبِيٍّ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ " عَنِ اسْتِلَامِ الْحَجَرِ، فَقَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ ". فَقَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ غُلِبْتُ عَلَيْهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ زُوحِمْتُ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: اجْعَلْ أَرَأَيْتَ بِالْيَمَنِ، رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ. قَالَ: وَهَذَا هُوَ الزُّبَيْرُ بْنُ عَرَبِيٍّ، رَوَى عَنْهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ عَدِيٍّ كُوفِيٌّ يُكْنَى أَبَا سَلَمَةَ، سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ تَقْبِيلَ الْحَجَرِ، فَإِنْ لَمْ يُمْكِنْهُ وَلَمْ يَصِلْ إِلَيْهِ اسْتَلَمَهُ بِيَدِهِ وَقَبَّلَ يَدَهُ، وَإِنْ لَمْ يَصِلْ إِلَيْهِ اسْتَقْبَلَهُ إِذَا حَاذَى بِهِ وَكَبَّرَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
زبیر بن عربی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابن عمر رضی الله عنہما سے حجر اسود کا بوسہ لینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھا ہے۔ اس نے کہا: اچھا بتائیے اگر میں وہاں تک پہنچنے میں مغلوب ہو جاؤں اور اگر میں بھیڑ میں پھنس جاؤں؟ تو اس پر ابن عمر نے کہا: تم (یہ اپنا) اگر مگر یمن میں رکھو ۱؎ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھا ہے۔ یہ زبیر بن عربی وہی ہیں، جن سے حماد بن زید نے روایت کی ہے، کوفے کے رہنے والے تھے، ان کی کنیت ابوسلمہ ہے۔ انہوں نے انس بن مالک اور دوسرے کئی صحابہ سے حدیثیں روایت کیں ہیں۔ اور ان سے سفیان ثوری اور دوسرے کئی اور ائمہ نے روایت کی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ان سے یہ دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ حجر اسود کے بوسہ لینے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو اور آدمی وہاں تک نہ پہنچ سکے تو اسے اپنے ہاتھ سے چھو لے اور اپنے ہاتھ کا بوسہ لے لے اور اگر وہ اس تک نہ پہنچ سکے تو جب اس کے سامنے میں پہنچے تو اس کی طرف رخ کرے اور اللہ اکبر کہے، یہ شافعی کا قول ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 60 (1611)، سنن النسائی/الحج 155 (2949)، (تحفة الأشراف: 6719)، مسند احمد (2/152) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎ مطلب یہ ہے کہ اگر مگر چھوڑ دو، اس طرح کے سوالات سنت رسول کے شیدائیوں کو زیب نہیں دیتے، یہ تو تارکین سنت کا شیوہ ہے، سنت رسول کو جان لینے کے بعد اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: albanistatus_desc
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 861  
´حجر اسود کو بوسہ لینے کا بیان۔`
زبیر بن عربی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابن عمر رضی الله عنہما سے حجر اسود کا بوسہ لینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھا ہے۔ اس نے کہا: اچھا بتائیے اگر میں وہاں تک پہنچنے میں مغلوب ہو جاؤں اور اگر میں بھیڑ میں پھنس جاؤں؟ تو اس پر ابن عمر نے کہا: تم (یہ اپنا) اگر مگر یمن میں رکھو ۱؎ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھا ہے۔ یہ زبیر بن عربی وہی ہیں، جن سے حماد بن زید نے روایت کی ہے، کوفے کے رہنے والے تھے، ان کی کنیت ابوسلمہ ہے۔ انہوں نے انس بن مالک ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 861]
اردو حاشہ:
1؎:
مطلب یہ ہے کہ اگر مگر چھوڑ دو،
اس طرح کے سوالات سنت رسول کے شیدائیوں کو زیب نہیں دیتے،
یہ تو تارکین سنت کا شیوہ ہے،
سنت رسول کو جان لینے کے بعد اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہر ممکن کوشش کر نی چاہئے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 861