صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا -- کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
10. بَابُ إِذَا وَقَفَ أَوْ أَوْصَى لأَقَارِبِهِ وَمَنِ الأَقَارِبُ:
باب: اگر کسی نے اپنے عزیزوں پر کوئی چیز وقف کی یا ان کے لیے وصیت کی تو کیا حکم ہے اور عزیزوں سے کون لوگ مراد ہوں گے۔
وَقَالَ ثَابِتٌ: عَنْ أَنَسٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي طَلْحَةَ:" اجْعَلْهَا لِفُقَرَاءِ أَقَارِبِكَ، فَجَعَلَهَا لِحَسَّانَ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ".
اور ثابت نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ سے فرمایا تو یہ باغ اپنے ضرورت مند عزیزوں کو دے ڈال۔ انہوں نے حسان اور ابی بن کعب کو دے دیا (جو ابوطلحہ کے چچا کی اولاد تھے) اور محمد بن عبداللہ انصاری نے کہا مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ انہوں نے ثمامہ سے ‘ انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے ثابت کی طرح روایت کی ‘ اس میں یوں ہے اپنے قرابت دار محتاجوں کو دے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا۔ تو ابوطلحہ نے وہ باغ حسان اور ابی بن کعب کو دے دیا ‘ وہ مجھ سے زیادہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار تھے اور حسان اور ابی بن کعب کی قرابت ابوطلحہ سے یوں تھی کہ ابوطلحہ کا نام زید ہے وہ سہیل کے بیٹے ‘ وہ اسود کے ‘ وہ حرام کے ‘ وہ عمرو بن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجار کے اور حسان ثابت کے بیٹے ‘ وہ منذر کے ‘ وہ حرام کے تو دونوں حرام میں جا کر مل جاتے ہیں جو پردادا ہے تو حرام بن عمرو بن زید ‘ مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجار حسان اور ابوطلحہ کو ملا دیتا ہے اور ابی بن کعب چھٹی پشت میں یعنی عمرو بن مالک میں ابوطلحہ سے ملتے ہیں، ابی بن کعب کے بیٹے ‘ وہ قیس کے ‘ وہ عبید کے ‘ وہ زید کے ‘ وہ معاویہ کے ‘ وہ عمرو بن مالک بن نجار کے تو عمرو بن مالک حسان اور ابوطلحہ اور ابی تینوں کو ملا دیتا ہے اور بعضوں نے (امام ابویوسف امام ابوحنیفہ کے شاگرد نے) کہا عزیزوں کے لیے وصیت کرے تو جتنے مسلمان باپ دادا گزرے ہیں وہ سب داخل ہوں گے۔
حدیث نمبر: 2752
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي طَلْحَةَ" أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ، قَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ، وَبَنِي عَمِّهِ". وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنَادِي يَا بَنِي فِهْرٍ، يَا بَنِي عَدِيٍّ لِبُطُونِ قُرَيْشٍ. وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ‘ انہوں نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ سے فرمایا (جب انہوں نے اپنا باغ بیرحاء اللہ کی راہ میں دینا چاہا) میں مناسب سمجھتا ہوں تو یہ باغ اپنے عزیزوں کو دیدے۔ ابوطلحہ نے کہا بہت خوب ایسا ہی کروں گا۔ پھر ابوطلحہ نے وہ باغ اپنے عزیزوں اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کر دیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا جب (سورۃ الشعراء کی) یہ آیت اتری «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» اور اپنے قریب کے ناطے والوں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے خاندانوں بنی فہر ‘ بنی عدی کو پکارنے لگے (ان کو ڈرایا) اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا جب یہ آیت اتری «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے قریش کے لوگو! (اللہ سے ڈرو)۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 287  
´نیکی، صلہ رحمی، حسنِ سلوک اور صدقات میں سب سے پہلے رشتہ داروں کو ترجیح `
«. . . رسول الله صلى الله عليه وسلم بخ، ذلك مال رابح، ذلك مال رابح قد سمعت ما قلت فيها، وإني ارى ان تجعلها فى الاقربين . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واہ! یہ نفع بخش مال ہے، یہ نفع بخش مال ہے، میں نے تمہاری بات سنی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں خرچ کرو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 287]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1461، 2752، و مسلم 2315/998، من حديث مالك به]

تفقه:
➊اس حدیث میں سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی زبردست فضیلت ہے جنہوں نے اپنا محبوب ترین مال اللہ کے راستے میں خرچ کر دیا۔
➋ صحابہ کرام ہر وقت قرآن و حدیث پر اپنے اموال اور اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
➌ نیکی، صلہ رحمی، حسن سلوک اور صدقات میں سب سے پہلے رشتہ داروں کو ترجیح دینی چاہئے اور یہی افضل ہے۔
➍ مال سے محبت فطری امر ہے بشرطیکہ شریعت کے خلاف نہ ہو۔ اسی طرح باغات وغیرہ بنانا اور علمائے کرام کا ان سے استفادہ کرنا سب جائز ہے۔
➎ عموم پر عمل جائز ہے اِلا یہ کہ تخصیص کی دلیل ہو۔
➏ جو شخص کوئی چیز صدقہ کر دے تو پھر اسے رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔
➐ اللہ تعالیٰ کے راستے میں بہترین چیز خرچ کرنی چاہئے، وہ خواہ مال ہو یا جان، اس لئے دینی تعلیم کے حصول کے لئے اپنی اولاد میں سے محبوب ترین اور ذہین ترین افراد کا انتخاب کرنا چاہئے۔
➑ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا عمل آیت مبارکہ: «لَنْ تَنَالُوا البِرَّ» کی بہترین تفسیر ہے۔ «سبحان الله»
➒ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا مال انھی کے اقرباء میں تقسیم کرنے کا حکم دیا، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال استغناء ثابت ہوتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 116   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2997  
´سورۃ آل عمران سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت: «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون» ۱؎ یا «من ذا الذي يقرض الله قرضا حسنا» ۲؎ نازل ہوئی۔ اس وقت ابوطلحہ رضی الله عنہ کے پاس ایک باغ تھا، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باغ اللہ کی رضا کے لیے صدقہ ہے، اگر میں اسے چھپا سکتا (تو چھپاتا) اعلان نہ کرتا ۳؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اپنے رشتہ داروں کے لیے وقف کر دو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2997]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے۔
(آل عمران: 92)

2؎:
ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے (البقرۃ: 245)

3؎:
کیونکہ چھپا کر صدقہ وخیرات کرنا اللہ کو زیادہ پسند ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2997   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1689  
´رشتے داروں سے صلہ رحمی (اچھے برتاؤ) کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون» کی آیت نازل ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرا خیال ہے کہ ہمارا رب ہم سے ہمارے مال مانگ رہا ہے، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اریحاء نامی اپنی زمین اسے دے دی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو، تو انہوں نے اسے حسان بن ثابت اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہما کے درمیان تقسیم کر دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے محمد بن عبداللہ انصاری سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ابوطلحہ کا نام: زید بن سہل بن اسود بن حرام بن عمرو ابن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن النجار ہے، اور حسان: ثابت بن منذر بن حرام کے بیٹے ہیں، اس طرح ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور حسان رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب حرام پر مل جاتا ہے وہی دونوں کے تیسرے باپ (پردادا) ہیں، اور ابی رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے: ابی بن کعب بن قیس بن عتیک بن زید بن معاویہ بن عمرو بن مالک بن نجار، اس طرح عمرو: حسان، ابوطلحہ اور ابی تینوں کو سمیٹ لیتے ہیں یعنی تینوں کے جد اعلیٰ ہیں، انصاری (محمد بن عبداللہ) کہتے ہیں: ابی رضی اللہ عنہ اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے نسب میں چھ آباء کا فاصلہ ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1689]
1689. اردو حاشیہ: کہاں یہ جاہلیت کے چچا تائے کی اولاد آپس میں حریف گرانے جاتے ہوں۔اور کہاں یہ محبت والفت کہ پر دادا بلکہ چھٹے باپ کی اولاد اس قدرحسن سلوک۔۔۔کہ قیمتی زمین ان کے نام لگادی۔اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال میں سچ فرمایا۔ <قرآن> هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ ﴿٦٢﴾ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (الانفال۔6
➋ 63)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1689   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2752  
2752. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو طلحہ ؓ سے فرمایا: میری رائے کے مطابق آپ اپنا باغ قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردیں۔ حضرت ابو طلحہ ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میں ایسا ہی کروں گا، چنانچہ ابو طلحہ ؓ نے وہ(باغ) اپنے قرابت داروں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کردیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: جب یہ آیت نازل ہوئی: آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کوڈرائیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے بنو فہر! اے بنو عدی! یہ قریش کے مختلف خاندانوں کے نام ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کریں۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے قریش کے لوگو!(اللہ سے ڈرو)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2752]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے یہاں تین روایات کو یکجا بیان کیا ہے۔
پہلی روایت انتہائی مختصر ہے، آئندہ تفصیل سے بیان ہو گی کہ حضرت ابو طلحہ ؓ انصار میں باغات کے اعتبار سے زیادہ مال دار تھے۔
ان کا ایک باغ مسجد نبوی کے سامنے تھا جہاں رسول اللہ ﷺ تشریف لے جاتے اور وہاں قدرتی چشموں سے میٹھا پانی پیا کرتے۔
اس باغ کو انہوں نے اپنے رشتے داروں حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت حسان بن ثابتؓ، ان کے بھائی حضرت شداد بن اوس ؓ اور نبیط بن جابر ؓ میں تقسیم کر دیا تھا۔
حضرت حسان ؓ نے اپنا حصہ ایک لاکھ درہم کے عوض حضرت معاویہ ؓ کو فروخت کر دیا تھا۔
(فتح الباري: 486/5) (2)
دوسری اور تیسری روایت حضرت ابن عباس ؓاور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مختصر طور پر بیان ہوئی ہے۔
تفصیلی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو عبد مناف، حضرت عباسؓ، حضرت صفیہ ؓاور اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کو آواز دے کر پکارا اور کہا:
میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔
اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنا تحفظ خود کر لو۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4771) (3)
امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ رشتے داروں میں مرد اور عورتیں سب شامل ہوتے ہیں، نیز یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ اگر قریبی رشتے داروں کے لیے وصیت ہو تو تمام قریبی رشتے داروں کو دینا ضروری نہیں ہوتا کیونکہ بنو حرام جس میں ابو طلحہ اور حسان ؓ جمع ہوئے ہیں وہ مدینہ طیبہ میں بکثرت آباد تھے اور عمرو بن مالک کے قرابت دار جس میں ابو طلحہ اور ابی بن کعب ؓ جمع ہوئے تھے وہ تو بے حد و شمار تھے لیکن ان سب میں باغ تقسیم نہیں کیا بلکہ صرف ابی بن کعب اور حضرت حسان ؓ میں تقسیم کر دیا گیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2752