سنن ترمذي
كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
111. باب مَا جَاءَ فِي اسْتِلاَمِ الرُّكْنَيْنِ
باب: حجر اسود اور رکن یمانی کے استلام کا بیان۔
حدیث نمبر: 959
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ ابْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُزَاحِمُ عَلَى الرُّكْنَيْنِ زِحَامًا مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ. فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّكَ تُزَاحِمُ عَلَى الرُّكْنَيْنِ زِحَامًا مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُزَاحِمُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: إِنْ أَفْعَلْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ مَسْحَهُمَا كَفَّارَةٌ لِلْخَطَايَا "، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " مَنْ طَافَ بِهَذَا الْبَيْتِ أُسْبُوعًا فَأَحْصَاهُ، كَانَ كَعِتْقِ رَقَبَةٍ "، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " لَا يَضَعُ قَدَمًا وَلَا يَرْفَعُ أُخْرَى إِلَّا حَطَّ اللَّهُ عَنْهُ خَطِيئَةً، وَكَتَبَ لَهُ بِهَا حَسَنَةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ ابْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِيهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی الله عنہما حجر اسود اور رکن یمانی پر ایسی بھیڑ لگاتے تھے جو میں نے صحابہ میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا۔ تو میں نے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! آپ دونوں رکن پر ایسی بھیڑ لگاتے ہیں کہ میں نے صحابہ میں سے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ تو انہوں نے کہا: اگر میں ایسا کرتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ان پر ہاتھ پھیرنا گناہوں کا کفارہ ہے۔ اور میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے: جس نے اس گھر کا طواف سات مرتبہ (سات چکر) کیا اور اسے گنا، تو یہ ایسے ہی ہے گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا۔ اور میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے: وہ جتنے بھی قدم رکھے اور اٹھائے گا اللہ ہر ایک کے بدلے اس کی ایک غلطی معاف کرے گا اور ایک نیکی لکھے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- حماد بن زید نے بطریق: «عطا بن السائب، عن ابن عبید بن عمير، عن ابن عمر» روایت کی ہے اور اس میں انہوں نے ابن عبید کے باپ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7317) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: (قوله: