سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
25. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ
باب: میت پر رونے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1006
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، قَالَ: وحَدَّثَنَا، إِسْحَاق بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا سَمِعْتُ عَائِشَةَ، وَذُكِرَ لَهَا أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: " إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ عَلَيْهِ "، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: غَفَرَ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكْذِبْ وَلَكِنَّهُ نَسِيَ أَوْ أَخْطَأَ، إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يُبْكَى عَلَيْهَا، فَقَالَ: " إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ 74.
عمرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کو کہتے سنا اور ان سے ذکر کیا گیا تھا کہ ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میت پر لوگوں کے رونے کی وجہ سے اسے عذاب دیا جاتا ہے (عائشہ رضی الله عنہا نے کہا) اللہ ابوعبدالرحمٰن کی مغفرت فرمائے۔ سنو، انہوں نے جھوٹ نہیں کہا۔ بلکہ ان سے بھول ہوئی ہے یا وہ چوک گئے ہیں۔ بات صرف اتنی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک یہودی عورت کے پاس سے ہوا جس پر لوگ رو رہے تھے۔ تو آپ نے فرمایا: یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 32 (1289)، صحیح مسلم/الجنائز 9 (932)، سنن النسائی/الجنائز 7 (185) (تحفة الأشراف: 17948) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/المغازي 8 (3978)، صحیح مسلم/الجنائز 9 (931)، سنن ابی داود/ الجنائز 29 (3139)، سنن النسائی/الجنائز 15 (1856، 1858، 1859)، مسند احمد (2/38)، و (6/39، 57، 95، 209) من غیر ہذا الوجہ والسیاق۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح الأحكام (28)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1595  
´میت پر نوحہ خوانی سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک یہودی عورت کا انتقال ہو گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو اس پر روتے ہوئے سنا، تو فرمایا: اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں جب کہ اسے قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1595]
اردو حاشہ:
فائدہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ پس ماندگان کے رونے سے میت کو عذاب نہیں ہوتا۔
کیونکہ ایک کے عمل کی سزا دوسرے کو نہیں دی جا سکتی۔
رسول اللہ ﷺنے یہ بات ایک قانون کے طور پر نہیں فرمائی تھی۔
کہ ہر رونے والے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔
بلکہ یہودیوں کو اپنے مرنے والی پر روتے دیکھ کر فرمایا تھا کہ ان کے رونے کا اسے کیا فائدہ؟ وہ تو اپنے گناہوں کی سزا بھگت ہی رہی ہے۔
یہ رویئں یا نہ رویئں برابر ہے۔
ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ رائے اپنی جگہ درست ہے کہ رونے پیٹنے کا میت کو کیا فائدہ؟ تاہم حدیث کا وہ مفہوم زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔
کہ ان کے رونے سے بھی اسے عذاب ہوتا ہے۔
جبکہ وہ اپنى زندگی میں اسے اچھا سمجھتا رہا ہواس کی تلقین کرتا رہا ہو یا ا س کی وصیت کی ہو اگر یہ صورت حال نہ ہو تو پھر ان کے رونے پیٹنے اور بین کرنے سے اسے افسوس تو ہوتا ہے۔
کہ جو موقع عبرت حاصل کرنے کا تھا۔
اس موقع پر بھی وہ گناہ میں ملوث ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ فرماتے ہیں۔ (باب قول النبي صلي الله عليه وسلم يعذب الميت ببعض بكاء اهله عليه ...اذا كان النوح من سنته.......،) (صحیح البخاري، الجنائز، باب: 32)
نبی ﷺ کے اس فرمان کا بیان کہ میت کو اس کے بعض گھر والوں کے بعض رونے سے عذاب ہوتا ہے۔
یعنی جب رونا پیٹنا اس (کے خاندان)
کی رسم ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1595