سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
26. باب مَا جَاءَ فِي الْمَشْىِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ
باب: جنازے کے آگے چلنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1009
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ ". قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَأَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ أَبَاهُ كَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ هَكَذَا رَوَاهُ ابْنُ جُرَيْجٍ، وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، وَرَوَى مَعْمَرٌ، وَيُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، وَمَالِكٌ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ، عن الزُّهْرِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ ". وَأَهْلُ الْحَدِيثِ كُلُّهُمْ يَرَوْنَ أَنَّ الْحَدِيثَ الْمُرْسَلَ فِي ذَلِكَ أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت يَحْيَى بْنَ مُوسَى، يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا مُرْسَلٌ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: وَأَرَى ابْنَ جُرَيْجٍ أَخَذَهُ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ زِيَادٍ وَهُوَ: ابْنُ سَعْدٍ، وَمَنْصُورٍ، وَبَكْرٍ، وَسُفْيَانَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَإِنَّمَا هُوَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، رَوَى عَنْهُ هَمَّامٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَشْيِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ، فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: أَنَّ الْمَشْيَ أَمَامَهَا أَفْضَلُ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، قَالَ: وَحَدِيثُ أَنَسٍ فِي هَذَا الْبَابِ غَيْرُ مَحْفُوظٍ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما جنازے کے آگے آگے چلتے تھے۔ زہری یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ ان کے والد عبداللہ بن عمر جنازے کے آگے چلتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کی حدیث اسی طرح ہے، اسے ابن جریج، زیاد بن سعد اور دیگر کئی لوگوں نے زہری سے ابن عیینہ کی حدیث ہی کی طرح روایت کیا ہے، اور زہری نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد ابن عمر سے روایت کی ہے۔ معمر، یونس بن یزید اور حفاظ میں سے اور بھی کئی لوگوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے آگے چلتے تھے۔ زہری کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے چلتے تھے۔ تمام محدثین کی رائے ہے کہ مرسل حدیث ہی اس باب میں زیادہ صحیح ہے،
۲- ابن مبارک کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں زہری کی حدیث مرسل ہے، اور ابن عیینہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،
۳- ابن مبارک کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ابن جریج نے یہ حدیث ابن عیینہ سے لی ہے،
۴- ہمام بن یحییٰ نے یہ حدیث زیاد بن سعد، منصور، بکر اور سفیان سے اور ان لوگوں نے زہری سے، زہری نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد ابن عمر سے روایت کی ہے۔ اور سفیان سے مراد سفیان بن عیینہ ہیں جن سے ہمام نے روایت کی ہے،
۵- اس باب میں انس رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، انس کی حدیث اس باب میں غیر محفوظ ہے ۱؎،
۶- جنازے کے آگے چلنے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جنازے کے آگے چلنا افضل ہے۔ شافعی اور احمد اسی کے قائل ہیں۔

تخریج الحدیث: «و موطا امام مالک/الجنائز 2 (8)، انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 19393) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ملاحظہ ہو اگلی حدیث (۱۰۱۰) رہی ابن مسعود کی روایت جو آگے آ رہی ہے «الجنازة متبوعة ولا تتبع وليس منها من تقدمها» تو یہ روایت صحیح نہیں ہے جیسا کہ آگے اس کی تفصیل آ رہی ہے۔ (ملاحظہ ہو: ۱۰۱۱)

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة أيضا
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1482  
´جنازہ کے آگے چلنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ جنازہ کے آگے چلتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1482]
اردو حاشہ:
فائده:
(اِتَّبَاعُ الْجَنَائِز)
جنازوں کے پیچھے جانا اس لفظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنازے کے ساتھ جانے والے سبھی افراد کو پیچھے چلنا چاہیے۔
لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیچھے جانے کے لفظ سے ساتھ جانا مراد ہے۔
اس لئے ساتھ جانے والے جس طرح میت کی چار پائی کے پیچھے چل سکتے ہیں۔
اسی طرح آگے بھی چل سکتے ہیں لہذا دایئں یا بایئں چلنا تو بالاولیٰ جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1482   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 462  
´جنازے کے ساتھ چلنے کا بیان`
سیدنا سالم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کو جنازے کے آگے چلتے دیکھا ہے۔ . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 462]
فائدہ:
جنازے کے ساتھ قبرستان تک جانے کی صورت میں آگے چلنا چاہیے یا پیچھے؟ مختلف روایات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دائیں بائیں، آگے اور پیچھے ہر طرح سے ثابت ہے۔

روای حدیث:
[ سالم رحمہ اللہ ] ان کی کنیت ابوعبداللہ یا ابوعمر ہے۔ سلسلہ نسب یوں ہے۔ سالم بن عبداللہ بن عمر بن خطاب۔ سادات تابعین میں سے تھے اور اپنے دور کے معتبر عالم تھے۔ مدینہ طیبہ کے فقہائے سبعہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ نہایت ثابت، عالم فاضل تھے۔ اخلاق و سیرت اور عادات میں اپنے والد سے بہت مشابہت رکھتے تھے۔ ذوالقعدہ یا ذوالححجہ کے مہینے میں ۱۰۶ ہجری میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 462   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1009  
´جنازے کے آگے چلنے کا بیان۔`
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما جنازے کے آگے آگے چلتے تھے۔ زہری یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ ان کے والد عبداللہ بن عمر جنازے کے آگے چلتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1009]
اردو حاشہ:
وضاحت:
 
1؎:
ملاحظہ ہو اگلی حدیث (1010) رہی ابن مسعود کی روایت جو آگے آ رہی ہے  «الجنازة متبوعة ولا تتبع وليس منها من تقدمها»  تو یہ روایت صحیح نہیں ہے جیسا کہ آگے اس کی تفصیل آ رہی ہے۔
 (ملاحظہ ہو: 1011)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1009   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3179  
´جنازے کے آگے آگے چلنا۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو جنازے کے آگے چلتے دیکھا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3179]
فوائد ومسائل:
حسب احوال میت کے آگے آگے پیدل چلنا جائز ہے۔
اس میں میت کی کوئی بے ادبی نہیں ہوتی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3179