سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
28. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الرُّكُوبِ خَلْفَ الْجَنَازَةِ
باب: جنازے کے پیچھے سواری پر چلنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1012
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ، فَرَأَى نَاسًا رُكْبَانًا، فَقَالَ: " أَلَا تَسْتَحْيُونَ، إِنَّ مَلَائِكَةَ اللَّهِ عَلَى أَقْدَامِهِمْ وَأَنْتُمْ عَلَى ظُهُورِ الدَّوَابِّ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ثَوْبَانَ قَدْ رُوِيَ عَنْهُ مَوْقُوفًا، قَالَ مُحَمَّدٌ: الْمَوْقُوفُ مِنْهُ أَصَحُّ.
ثوبان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں نکلے، آپ نے کچھ لوگوں کو سوار دیکھا تو فرمایا: کیا تمہیں شرم نہیں آتی؟ اللہ کے فرشتے پیدل چل رہے ہیں اور تم جانوروں کی پیٹھوں پر بیٹھے ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ثوبان کی حدیث، ان سے موقوفاً بھی مروی ہے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ان کی موقوف روایت زیادہ صحیح ہے،
۲- اس باب میں مغیرہ بن شعبہ اور جابر بن سمرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 15 (1480) (ضعیف) (سند میں ابو بکر بن ابی مریم ضعیف ہیں)»

وضاحت: ۱؎: یہ حدیث جنازہ کے پیچھے سوار ہو کر چلنے کی کراہت پر دلالت کرتی ہے مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کی روایت اس کے معارض ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «الراكب يسير خلف الجنازة والماشي يمشي خلفها وأمامها عن يمينها ويسارها قريبا منها» سوار آدمی جنازے کے پیچھے چلتا ہے جب کہ پیدل چلنے والا اس کے پیچھے، آگے، دائیں، بائیں قریب ہو کر چلتا ہے۔ ان دونوں روایتوں میں تطبیق کئی طرح سے دی جاتی ہے ایک یہ کہ ثوبان کی روایت ضعیف ہے، دوسرے یہ کہ یہ غیر معذور کے سلسلہ میں ہے اور مغیرہ بن شعبہ کی روایت معذور شخص کے سلسلہ میں ہے، تیسرے یہ کہ ثوبان کی روایت میں یہ نہیں ہے کہ وہ سوار جنازے کے پیچھے تھے، ہو سکتا ہے کہ وہ جنازے کے آگے رہے ہوں یا جنازہ کے بغل میں رہے ہوں اس صورت میں یہ مغیرہ کی حدیث کے منافی نہ ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1480) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (323) ، الأحكام ص (75) الملحق، المشكاة (1672) ، ضعيف الجامع الصغير (2177) //
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1480  
´جنازہ میں شرکت کا بیان۔`
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ میں کچھ لوگوں کو جانوروں پر سوار دیکھا، تو فرمایا: تمہیں شرم نہیں آتی کہ اللہ کے فرشتے پیدل چل رہے ہیں اور تم سوار ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1480]
اردو حاشہ:
فائدہ:
مذکورہ تینوں روایات ضعیف ہیں۔
اس لئے ان سے کسی بھی مسئلے کا اثبات نہیں ہوتا۔
باری باری چار پائی کے چاروں کونوں کوکندھا دینا ضروری ہے نہ سواری پر سواری ہوکر جنازے میں شریک ہونے میں کوئی قباحت ہے۔
البتہ سواری پر ہونے کی صورت میں بہتر ہے۔
کہ وہ جنازے کے پیچھے پیچھے چلے۔
تاہم واپسی پر یہ پابندی از خود ختم ہوجاتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1480   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1012  
´جنازے کے پیچھے سواری پر چلنے کی کراہت کا بیان۔`
ثوبان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں نکلے، آپ نے کچھ لوگوں کو سوار دیکھا تو فرمایا: کیا تمہیں شرم نہیں آتی؟ اللہ کے فرشتے پیدل چل رہے ہیں اور تم جانوروں کی پیٹھوں پر بیٹھے ہو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1012]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
یہ حدیث جنازہ کے پیچھے سوارہوکرچلنے کی کراہت پردلالت کرتی ہے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت اس کے معارض ہے جس میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا الراكب يسير خلف الجنازة والماشي يمشي خلفها وأمامها عن يمينها ويسارها قريبا منها (سوارآدمی جنازے کے پیچھے چلتاہے جب کہ پیدل چلنے والا اُس کے پیچھے،
آگے،
دائیں،
بائیں قریب ہوکرچلتاہے۔
)
ان دونوں روایتوں میں تطبیق کئی طرح سے دی جاتی ہے ایک یہ کہ ثوبان کی روایت ضعیف ہے،
دوسرے یہ کہ یہ غیرمعذورکے سلسلہ میں ہے اورمغیرہ بن شعبہ کی روایت معذورشخص کے سلسلہ میں ہے،
تیسرے یہ کہ ثوبان کی روایت میں یہ نہیں ہے کہ وہ سوارجنازے کے پیچھے تھے،
ہوسکتا ہے کہ وہ جنازے کے آگے رہے ہوں یا جنازہ کے بغل میں رہے ہوں اس صورت میں یہ مغیرہ کی حدیث کے منافی نہ ہوگا۔

نوٹ:

(سند میں ابوبکربن ابی مریم ضعیف ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1012