سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
46. باب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِيدِ
باب: شہید کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1036
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ، ثُمَّ يَقُولُ: " أَيُّهُمَا أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ "، فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدِهِمَا قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ، وَقَالَ: " أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ فِي دِمَائِهِمْ، وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ وَلَمْ يُغَسَّلُوا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرُوِيَ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي صُعَيْرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمِنْهُمْ مَنْ ذَكَرَهُ عَنْ جَابِرٍ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الشَّهِيدِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا يُصَلَّى عَلَى الشَّهِيدِ، وَهُوَ قَوْلُ: أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَبِهِ يَقُولُ: الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يُصَلَّى عَلَى الشَّهِيدِ، وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ صَلَّى عَلَى حَمْزَةَ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَبِهِ يَقُولُ: إِسْحَاق.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم احد کے مقتولین میں سے دو دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں ایک ساتھ کفناتے، پھر پوچھتے: ان میں قرآن کسے زیادہ یاد تھا؟ تو جب آپ کو ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کر دیا جاتا تو آپ اسے لحد میں مقدم رکھتے اور فرماتے: قیامت کے روز میں ان لوگوں پر گواہ رہوں گا۔ اور آپ نے انہیں ان کے خون ہی میں دفنانے کا حکم دیا اور ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی اور نہ ہی انہیں غسل ہی دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- جابر کی حدیث حسن صحیح ہے، یہ حدیث زہری سے مروی ہے انہوں نے اسے انس سے اور انس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے نیز یہ زہری سے عبداللہ بن ثعلبہ بن ابی صعیر کے واسطے سے بھی مروی ہے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے اور ان میں سے بعض نے اسے جابر کی روایت سے ذکر کیا،
۲- اس باب میں انس بن مالک سے بھی روایت ہے،
۳- اہل علم کا شہید کی نماز جنازہ کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ شہید کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ یہی اہل مدینہ کا قول ہے۔ شافعی اور احمد بھی یہی کہتے ہیں،
۴- اور بعض کہتے ہیں کہ شہید کی نماز پڑھی جائے گی۔ ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ آپ نے حمزہ رضی الله عنہ کی نماز پڑھی تھی۔ ثوری اور اہل کوفہ اسی کے قائل ہیں اور یہی اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 72 (1343)، و73 (1345)، و75 (1346)، و78 (1348)، والمغازي 26 (4079)، سنن ابی داود/ الجنائز 31 (3138)، سنن النسائی/الجنائز 62 (1957)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 28 (1514)، (تحفة الأشراف: 2382) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس موضوع پر مفصل بحث لکھنے کے بعد صاحب تحفۃ الأحوذی فرماتے ہیں: میرے نزدیک ظاہر مسئلہ یہی ہے کہ شہید پر نماز جنازہ واجب نہیں ہے، البتہ اگر پڑھ لی جائے تو جائز ہے، اور ماوردی نے امام احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ شہید پر نماز جنازہ زیادہ بہتر ہے اور اس پر نماز جنازہ نہ پڑھیں گے تو بھی (اس کی شہادت اُسے) کفایت کرے گی، (فانظر فتح الباری عند الموضوع)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1514)
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1036  
´شہید کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم احد کے مقتولین میں سے دو دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں ایک ساتھ کفناتے، پھر پوچھتے: ان میں قرآن کسے زیادہ یاد تھا؟ تو جب آپ کو ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کر دیا جاتا تو آپ اسے لحد میں مقدم رکھتے اور فرماتے: قیامت کے روز میں ان لوگوں پر گواہ رہوں گا۔‏‏‏‏ اور آپ نے انہیں ان کے خون ہی میں دفنانے کا حکم دیا اور ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی اور نہ ہی انہیں غسل ہی دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1036]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
اس موضوع پر مفصل بحث لکھنے کے بعدصاحب تحفۃ الأحوذی فرماتے ہیں:
میرے نزدیک ظاہرمسئلہ یہی ہے کہ شہید پر صلاۃِجنازہ واجب نہیں ہے،
البتہ اگرپڑھ لی جائے تو جائز ہے،
اورماوردی نے امام احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ شہید پر صلاۃِ جنازہ زیادہ بہترہے اور اس پرصلاۃ جنازہ نہ پڑھیں گے توبھی (اس کی شہادت اُسے) کفایت کرے گی،
(فانظرفتح الباری عندالموضوع)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1036   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1016  
´شہدائے احد اور حمزہ بن عبدالمطلب رضی الله عنہ کا ذکر۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دن حمزہ (کی لاش) کے پاس آئے۔ آپ اس کے پاس رکے، آپ نے دیکھا کہ لاش کا مثلہ ۱؎ کر دیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: اگر صفیہ (حمزہ کی بہن) اپنے دل میں برا نہ مانتیں تو میں انہیں یوں ہی (دفن کیے بغیر) چھوڑ دیتا یہاں تک کہ درند و پرند انہیں کھا جاتے۔ پھر وہ قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے اٹھائے جاتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «نمر» (ایک پرانی چادر) منگوائی اور حمزہ کو اس میں کفنایا۔ جب آپ چادر ان کے سر کی طرف کھینچتے تو ان کے دونوں پیر کھل جاتے اور جب ان کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1016]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ناک کان اورشرمگاہ وغیرہ کاٹ ڈالنے کومثلہ کہتے ہیں۔

2؎:
جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ شہید پرجنازہ کی صلاۃ نہیں پڑھی جائیگی ان کااستدلال اسی حدیث سے ہے،
اور جولوگ یہ کہتے ہیں کہ شہید پر صلاۃ جنازہ پڑھی جائے گی وہ اس کی تاویل یہ کر تے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ان میں سے کسی پراس طرح صلاۃ نہیں پڑھی جیسے حمزہ رضی اللہ عنہ پرکئی بارپڑھی۔

3؎:
تمام نسخوں میں اسی طرح جابر بن عبد اللہ بن زید ہے جب کہ اس نام کے کسی صحابی کا تذکرہ کسی مصدر میں نہیں ملا،
اور کتب تراجم میں سب نے عبدالرحمن بن کعب بن مالک کے اساتذہ میں معروف صحابی جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرام ہی کا لکھا ہے،
نیز جابر بن عبداللہ بن عمرو ہی کے تلامذہ میں عبدالرحمن بن کعب بن مالک کا نام آیا ہوا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1016