سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
66. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْفِرَارِ مِنَ الطَّاعُونِ
باب: طاعون سے بھاگنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1065
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ الطَّاعُونَ، فَقَالَ: " بَقِيَّةُ رِجْزٍ، أَوْ عَذَابٍ أُرْسِلَ عَلَى طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَلَسْتُمْ بِهَا فَلَا تَهْبِطُوا عَلَيْهَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَعْدٍ، وَخُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون کا ذکر کیا، تو فرمایا: یہ اس عذاب کا بچا ہوا حصہ ہے، جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ ۱؎ پر بھیجا گیا تھا جب کسی زمین (ملک یا شہر) میں طاعون ہو جہاں پر تم رہ رہے ہو تو وہاں سے نہ نکلو ۲؎ اور جب وہ کسی ایسی سر زمین میں پھیلا ہو جہاں تم نہ رہتے ہو تو وہاں نہ جاؤ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اسامہ بن زید کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں سعد، خزیمہ بن ثابت، عبدالرحمٰن بن عوف، جابر اور عائشہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 54 (3473) والحیل 13 (6974) صحیح مسلم/السلام 32 (2218) (تحفة الأشراف: 92) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الطب 30 (5728) صحیح مسلم/السلام (المصدرالمذکور) من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت: ۱؎: اس گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے بیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونے کا حکم دیا تھا لیکن انہوں نے مخالفت کی، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے فرمایا «فأرسلنا عليهم رجزاً من السماء» آیت میں «رجزاً من السماء» سے مراد طاعون ہے چنانچہ ایک گھنٹہ میں ان کے بڑے بوڑھوں میں سے ۲۴ ہزار لوگ مر گئے۔
۲؎: کیونکہ وہاں سے بھاگ کر تم نہیں بچ سکتے اس سے بچاؤ کا راستہ توبہ و استغفار ہے نہ کہ وہاں سے چلے جانا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 435  
´طاعون کافروں اور نافرمانوں کے لئے عذاب اور مؤمنوں کے لئے رحمت ہے`
«. . . عن عامر بن سعد بن ابى وقاص عن ابيه انه سمعه يسال اسامة بن زيد: ماذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول فى الطاعون؟ فقال اسامة بن زيد: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الطاعون رجز ارسل على طائفة من بني إسرائيل او على من كان قبلكم. فإذا سمعتم به بارض فلا تدخلوا عليه وإذا وقع بارض وانتم بها فلا تخرجوا فرارا منه. قال مالك: قال ابو النضر: لا يخرجكم إلا فرارا منه . . .»
. . . عامر بن سعد بن ابی وقاص رحمہ اللہ نے اپنے ابا (سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کو سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہوئے سنا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں کیا سنا ہے؟ تو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طاعون ایک عذاب (بیماری) ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر یا تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا تھا۔ پس اگر تمہیں کسی علاقے میں اس (طاعون) کی خبر ملے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر وہ (طاعون) تمہارے علاقے میں آ جائے تو راہ فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے باہر نہ نکلو۔ مالک نے کہا: ابوالنضر نے (عامر سے روایت میں) کہا: یہ تمہیں راہ فرار پر مجبور کر کے نکال نہ دے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 435]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 3473، ومسلم 2218، من حديث مالك به]

تفقه
➊ طاعون کافروں اور نافرمانوں کے لئے عذاب ہے اور مؤمنوں کے لئے رحمت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أَنَّهُ عَذَابٌ يَبْعَثُهُ اللهُ عَلَى مَنْ يَّشَاءُ وَأَنَّ اللهَ جَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِيْنَ، لَيْسَ مِنْ أَحَدٍ يَقَعُ الطَّاعُوْنُ فَيَمْكُثُ فِيْ بَلَدِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيْبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَهُ إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ شَهِيْدٍ»
یہ عذاب ہے جسے اللہ جس پر چاہتا ہے بھیج دیتا ہے اور اللہ نے اسے مؤمنوں کے لئے رحمت بنایا ہے، جو شخص بھی طاعون میں مبتلا ہوتا ہے پھر اپنے علاقے میں صبر و شکر اور نیت ثواب سے ٹھہرا رہتا ہے، وہ جانتا ہے کہ اس پر صرف وہی مصیبت آتی ہے جو اللہ نے اس کے لئے (تقدیر میں) لکھ رکھی ہے تو اسے شہید کا اجر ملتا ہے۔ [صحيح بخاري: 3474]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«الطاعون شهادة لكل مسلم»
طاعون ہر مسلمان کے لئے شہادت ہے۔ [صحيح بخاري: 2830 و صحيح مسلم: 1916]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 87   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1065  
´طاعون سے بھاگنے کی کراہت کا بیان۔`
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون کا ذکر کیا، تو فرمایا: یہ اس عذاب کا بچا ہوا حصہ ہے، جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ ۱؎ پر بھیجا گیا تھا جب کسی زمین (ملک یا شہر) میں طاعون ہو جہاں پر تم رہ رہے ہو تو وہاں سے نہ نکلو ۲؎ اور جب وہ کسی ایسی سر زمین میں پھیلا ہو جہاں تم نہ رہتے ہو تو وہاں نہ جاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1065]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے بیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونے کاحکم دیا تھا لیکن انھوں نے مخالفت کی،
اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے فرمایا ﴿فأرسلنا عليهم رجزاً من السماء'آیت میں'رجزاً من السماء﴾ سے مرادطاعون ہے چنانچہ ایک گھنٹہ میں ان کے بڑے بوڑھوں میں سے 24ہزارلوگ مرگئے۔

2؎:
کیونکہ وہاں سے بھاگ کرتم نہیں بچ سکتے اس سے بچاؤکا راستہ توبہ واستغفارہے نہ کہ وہاں سے چلے جانا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1065