سنن ترمذي
كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
14. باب مَا جَاءَ لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِوَلِيٍّ
باب: ولی کے بغیر نکاح صحیح نہ ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1101
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق. وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق. ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَأَنَسٍ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کے بغیر نکاح نہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں عائشہ، ابن عباس، ابوہریرہ، عمران بن حصین اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ (ابوموسیٰ اشعری کی حدیث پر مولف کا مفصل کلام اگلے باب میں آ رہا ہے)۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ النکاح 20 (2085)، سنن ابن ماجہ/النکاح 15 (1880)، (تحفة الأشراف: 9115)، مسند احمد (4/413، 418)، سنن الدارمی/النکاح 11 (2228) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، جمہور کے نزدیک نکاح کے لیے ولی اور دو گواہ ضروری ہیں، ولی سے مراد باپ ہے، باپ کی غیر موجودگی میں دادا پھر بھائی پھر چچا ہے، اگر کسی کے پاس دو ولی ہوں اور نکاح کے موقع پر اختلاف ہو جائے تو ترجیح قریبی ولی کو حاصل ہو گی اور جس کا کوئی ولی نہ ہو تو (مسلم) حاکم اس کا ولی ہو گا، اور جہاں مسلم حاکم نہ ہو وہاں گاؤں کے باحیثیت مسلمان ولی ہوں گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1881)
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 835  
´(نکاح کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوبردہ بن ابی موسیٰ نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے۔ امام ابن مدینی، ترمذی اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور مرسل ہونے کی وجہ سے اسے معلول قرار دیا گیا ہے اور امام احمد رحمہ اللہ نے حسن سے اور انہوں نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مرفوع روایت بیان کی ہے کہ نکاح ولی اور دو گواہوں کے بغیر منعقد نہیں ہوتا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 835»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، النكاح، باب في الولي، حديث:2085، والترمذي، النكاح، حديث:1101، وابن ماجه، النكاح، حديث:1881، والنسائي: لم أجده، وأحمد:4 /394، وانظر لا بطال التعليل نيل المقصود لراقم الحروف،والحمد لِلهِ، وحديث عمران بن حصين أخرجه أحمد: لم أجده، ومتن الحديث صحيح بالشواهد.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
2.اس حدیث کو تیس کے قریب صحابہ رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے اور اس کے بعض طرق صحیح اور بعض ضعیف ہیں۔
3.جمہور علماء کی بھی رائے یہی ہے کہ ولی اور دو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
اگر کسی کے دو ولی ہوں اور نکاح کے موقع پر اختلاف واقع ہو جائے تو ترجیح قریبی ولی کو ہو گی۔
اگر کوئی بھی ولی نہ ہو تو حدیث میں ہے کہ سربراہ مملکت اس کا ولی ہے۔
اور اگر دونوں ولی برابر حیثیت کے ہوں اور ان میں اختلاف ہو جائے تو ایسی صورت میں بھی حاکم ولی ہو گا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 835   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1101  
´ولی کے بغیر نکاح صحیح نہ ہونے کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کے بغیر نکاح نہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1101]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ ولی کی اجازت کے بغیرنکاح نہیں ہوتا،
جمہورکے نزدیک نکاح کے لیے ولی اوردوگواہ ضروری ہیں،
ولی سے مرادباپ ہے،
باپ کی غیرموجودگی میں داداپھر بھائی پھرچچاہے،
اگر کسی کے پاس دوولی ہوں اور نکاح کے موقع پر اختلاف ہوجائے تو ترجیح قریبی ولی کوحاصل ہوگی اور جس کاکوئی ولی نہ ہو تو (مسلم) حاکم اس کا ولی ہوگا،
اور جہاں مسلم حاکم نہ ہو وہاں گاؤں کے باحیثیت مسلمان ولی ہوں گے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1101