سنن ترمذي
كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
43. باب مَا جَاءَ فِي الزَّوْجَيْنِ الْمُشْرِكَيْنِ يُسْلِمُ أَحَدُهُمَا
باب: اگر مشرک و کافر میاں بیوی میں سے کوئی اسلام لے آئے تو اس کا کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 1144
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ مُسْلِمًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَاءَتِ امْرَأَتُهُ مُسْلِمَةً، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا كَانَتْ أَسْلَمَتْ مَعِي فَرُدَّهَا عَلَيَّ، " فَرَدَّهَا عَلَيْهِ "، هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، سَمِعْت عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ هَارُونَ يَذْكُرُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق هَذَا الْحَدِيثَ، وَحَدِيثُ الْحَجَّاجِ، عنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عنْ أَبِيهِ، عنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَدَّ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِي بِمَهْرٍ جَدِيدٍ، وَنِكَاحٍ جَدِيدٍ "، قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَجْوَدُ إِسْنَادًا وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ، عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمان ہو کر آیا پھر اس کی بیوی بھی مسلمان ہو کر آ گئی تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس نے میرے ساتھ اسلام قبول کیا تھا۔ تو آپ اسے مجھے واپس دے دیجئیے۔ تو آپ نے اسے اسی کو واپس دے دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث صحیح ہے،
۲- حجاج نے یہ حدیث بطریق «عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده» روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب کو ابوالعاص کے ہاں نئے مہر اور نئے نکاح کے ذریعے لوٹایا،
۳- یزید بن ہارون کہتے ہیں کہ ابن عباس کی حدیث سند کے اعتبار سے سب سے اچھی ہے لیکن عمل «عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده» کی حدیث پر ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 23 (2238)، سنن ابن ماجہ/النکاح 60 (2008)، (تحفة الأشراف: 6106) (ضعیف) (سماک کی عکرمہ سے روایت میں شدید اضطراب ہے، الإرواء 1918، ضعیف سنن ابی داود، ط۔غراس رقم 387، سنن ترمذی مطبوعہ مکتبة المعارف میں پہلی سند بروایت یوسف بن عیسیٰ پر صحیح لکھا ہے، اور دوسری سند سمعت عبد بن حميد پر ضعیف لکھا ہے)۔»

وضاحت: ۱؎ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت اگر اپنے شوہر کے ساتھ اسلام لے آئے تو وہ اس کے نکاح میں باقی رہے گی، یہ اجماعی مسئلہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (1918) ، ضعيف أبي داود (387) // عندنا برقم (490 / 2238) //
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1144  
´اگر مشرک و کافر میاں بیوی میں سے کوئی اسلام لے آئے تو اس کا کیا حکم ہے؟`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمان ہو کر آیا پھر اس کی بیوی بھی مسلمان ہو کر آ گئی تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس نے میرے ساتھ اسلام قبول کیا تھا۔ تو آپ اسے مجھے واپس دے دیجئیے۔ تو آپ نے اسے اسی کو واپس دے دیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1144]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ عورت اگر اپنے شوہر کے ساتھ اسلام لے آئے تو وہ اس کے نکاح میں باقی رہے گی،
یہ اجماعی مسئلہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔
نوٹ:

(سماک کی عکرمہ سے روایت میں شدید اضطراب پایا جاتاہے،
الإرواء 1918،
ضعیف سنن ابی داؤد،
ط۔
غراس رقم 387،
سنن ترمذی مطبوعہ مکتبۃ المعارف میں پہلی سند بروایت یوسف بن عیسیٰ پر صحیح لکھاہے،
اور دوسری سند سمعت عبد بن حميد پر ضعیف لکھا ہے)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1144