سنن ترمذي
كتاب الرضاع -- کتاب: رضاعت کے احکام و مسائل
7. باب مَا جَاءَ فِي الْمَرْأَةِ تُعْتَقُ وَلَهَا زَوْجٌ
باب: عورت جو آزاد کر دی جائے اور وہ شوہر والی ہو۔
حدیث نمبر: 1154
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ عَبْدًا، فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا وَلَوْ كَانَ حُرًّا لَمْ يُخَيِّرْهَا ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ کے شوہر غلام تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو اختیار دیا، تو انہوں نے خود کو اختیار کیا، (عروہ کہتے ہیں) اگر بریرہ کے شوہر آزاد ہوتے تو آپ بریرہ کو اختیار نہ دیتے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/العتق 2 (1504/9)، سنن ابی داود/ الطلاق 19 (2233)، سنن النسائی/الطلاق 31 (3481)، (تحفة الأشراف: 16770) (صحیح) وأخرجہ مطولا ومختصرا کل من: صحیح البخاری/العتق 10 (2536)، والفرائض 22 (6758)، صحیح مسلم/العتق (المصدر المذکور) (504/10)، مسند احمد (6/46، 178)، سنن الدارمی/الطلاق 15 (2337) من غیر ھذا الوجہ، وانظر أیضا مایأتي برقم 1256 و 2124 و 2125»

وضاحت: ۱؎: نسائی نے سنن میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ آخری فقرہ حدیث میں مدرج ہے، یہ عروہ کا قول ہے، اور ابوداؤد نے بھی اس کی وضاحت کر دی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، لكن قوله: " ولو كان.... " مدرج من قول عروة، الإرواء (1873) ، صحيح أبي داود (1935)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2074  
´آزاد ہو جانے کے بعد لونڈی کو اختیار ہے کہ وہ اپنے شوہر کے پاس رہے یا نہ رہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اختیار دے دیا، (کہ وہ اپنے شوہر کے پاس رہیں یا اس سے جدا ہو جائیں) اور ان کے شوہر آزاد تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2074]
اردو حاشہ:
فائدہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بات درست نہیں کہ اس کا خاوند آزاد تھا۔
غالباً اس لیے ہمارے فاضل محقق نے اسے ضعیف قراردیا ہے جبکہ دوسرے محققین حضرات نے اس ٹکڑے کے علاوہ باقی حصے کو صحیح کہا ہے۔
صحیح یہ ہے کہ وہ غلام تھا جیسے کہ اگلی دو حدیثوں (2075، 2076)
میں آرہا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2074   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1154  
´عورت جو آزاد کر دی جائے اور وہ شوہر والی ہو۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ کے شوہر غلام تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو اختیار دیا، تو انہوں نے خود کو اختیار کیا، (عروہ کہتے ہیں) اگر بریرہ کے شوہر آزاد ہوتے تو آپ بریرہ کو اختیار نہ دیتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1154]
اردو حاشہ:
وضاخت: 1 ؎:
نسائی نے سنن میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ آخری فقرہ حدیث میں مدرج ہے،
یہ عروہ کا قول ہے،
اور ابو داؤد نے بھی اس کی وضاحت کر دی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1154   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2233  
´آزاد یا غلام کے نکاح میں موجود لونڈی کی آزادی کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بریرہ کے قصہ میں روایت ہے کہ اس کا شوہر غلام تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو (آزاد ہونے کے بعد) اختیار دے دیا تو انہوں نے اپنے آپ کو اختیار کیا، اگر وہ آزاد ہوتا تو آپ اسے (بریرہ کو) اختیار نہ دیتے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2233]
فوائد ومسائل:
شیخ البانی ؒ کہتے ہیں کہ حدیث میں آخری جملہ: اگر شوہر آزاد ہوتا۔
۔
۔
۔
مدرج ہے جو کہ عروہ کا قول ہے۔
(صحیح سنن أبي داود للألباني، حدیث:2233) تاہم مسئلے کی نوعیت یہی ہے کہ اگر شوہر آزاد ہو تو پھر لونڈی کو اختیار حاصل نہیں ہوگا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2233