سنن ترمذي
كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: طلاق اور لعان کے احکام و مسائل
4. باب مَا جَاءَ فِي الْخِيَارِ
باب: عورت کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے اختیار دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1179
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَرْنَاهُ، أَفَكَانَ طَلَاقًا؟ ". حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ بِمِثْلِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْخِيَارِ فَرُوِيَ، عَنْ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أنهما قَالَا: إِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَوَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ، وَرُوِيَ عَنْهُمَا أَنَّهُمَا، قَالَا: أَيْضًا وَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَلَا شَيْءَ وَرُوِيَ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّهُ قَالَ: إِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَوَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَوَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ، وقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: إِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَوَاحِدَةٌ، وَإِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَثَلَاثٌ، وَذَهَبَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، فِي هَذَا الْبَابِ إِلَى قَوْلِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، فَذَهَبَ إِلَى قَوْلِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا (چاہیں تو ہم آپ کے نکاح میں رہیں اور چاہیں تو نہ رہیں) ہم نے آپ کو اختیار کیا۔ کیا یہ طلاق مانی گئی تھی؟ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- (ساتھ رہنے اور نہ رہنے کے) اختیار دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ ۳- عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما کا کہنا ہے کہ اگر عورت نے خود کو اختیار کر لیا تو طلاق بائنہ ہو گی۔ اور انہی دونوں کا یہ قول بھی ہے کہ ایک طلاق ہو گی اور اسے رجعت کا اختیار ہو گا۔ اور اگر اس نے اپنے شوہر ہی کو اختیار کیا تو اس پر کچھ نہ ہو گا یعنی کوئی طلاق واقع نہ ہو گی ۲؎،
۴- اور علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے خود کو اختیار کیا تو طلاق بائن ہو گی اور اگر اس نے اپنے شوہر کو اختیار کیا تو ایک ہو گی لیکن رجعت کا اختیار ہو گا،
۵- زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے اپنے شوہر کو اختیار کیا تو ایک ہو گی اور اگر خود کو اختیار کیا تو تین ہوں گی،
۶- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم و فقہ اس باب میں عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما کے قول کی طرف گئے ہیں اور یہی ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے،
۷- البتہ احمد بن حنبل کا قول وہی ہے جو علی رضی الله عنہ کا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 5 (5263)، صحیح مسلم/الطلاق 4 (1477)، سنن النسائی/النکاح 2 (3204)، والطلاق 27 (3471- 3475) (تحفة الأشراف: 17614) مسند احمد 6/202، 205، 240) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن ابی داود/ الطلاق 12 (2203)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 20 (152)، مسند احمد (6/45، 48، 171، 173، 185، 264) من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت: ۱؎: استفہام انکاری ہے یعنی طلاق نہیں مانی تھی۔
۲؎: اور یہی قول اس صحیح حدیث کے مطابق ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2052)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2052  
´مرد اپنی بیوی کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیدے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو اختیار دیا تو ہم نے آپ ہی کو اختیار کیا، پھر آپ نے اس کو کچھ نہیں سمجھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2052]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ جب فتوحات کے نتیجے میں مسلمانوں کی مالی حالت بہتر ہوگئی تو انصار و مہاجرین کی عورتوں کی بہتر حالت کو دیکھ کر امہات المومنین نے نبی اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ ان کے نان و نفقے میں اضافہ کی جائے۔
رسول اللہﷺ اس سے پریشان ہوئے اور ایک مہینہ امہات المومنین سے الگ تھلگ ایک بالا خانے میں تشریف فرما رہے۔
اس کے بعد اللہ تعالی نے سورۃ احزاب کے چوتھے رکوع کی آیات نازل فرمائیں جن میں اللہ تعالی نے فرمایا:
اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیئے:
اگر تمہیں دنیا کی دولت مطلوب ہے تو وہ تمہیں مل جائے گی لیکن اس کےلیے مجھ سے علیحدگی اختیار کرنی ہوگی۔
اوراگر میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو تو پھر اسی طرح قناعت کی زندگی گزارنی پڑ ے گی جس طرح اب تک صبر و شکر کے ساتھ رہتی رہی ہو۔
امہات المومنین رضی اللہ عنہن نے نبئ اکرمﷺ کے ساتھ صبرو قناعت سے رہنے کے حق میں فیصلہ دیا، چنانچہ وہ سب نبی ﷺ کے نکاح میں رہیں۔ (صحیح البخاري، الطلاق، باب من خیر أزواجه......، حدیث: 5262، وصحیح مسلم، الطلاق، باب فی الإیلاء واعتزال النساء و تخییرهن.....، حدیث: 1479)

(2)
مرد کی طرف سے عورت کو اختیا ردینا طلاق نہیں، البتہ اگر عورت اس اختیار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے الگ ہونے کا فیصلہ کرلے تو ایک رجعی طلاق واقع ہوجائے گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2052   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1179  
´عورت کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے اختیار دینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا (چاہیں تو ہم آپ کے نکاح میں رہیں اور چاہیں تو نہ رہیں) ہم نے آپ کو اختیار کیا۔ کیا یہ طلاق مانی گئی تھی؟ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1179]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
استفہام انکاری ہے یعنی طلاق نہیں مانی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1179   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2203  
´عورت کو طلاق کا اختیار دینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (اپنے عقد میں رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دیا تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اختیار کیا، پھر آپ نے اسے کچھ بھی شمار نہیں کیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2203]
فوائد ومسائل:

اگر شوہر بیوی سے کہے مجھے اختیار کرلو یا اپنے آپ کو یا تمہیں اختیار ہے وغیرہ۔
اور نیت طلاق کی ہو۔
۔
۔
۔
۔
پھر اگر بیوی نے اپنے آپ کو اختیار کرلیا تو طلاق ہو جائے گی۔
اور اگر شوہر کو اختیار کرلے تو نہیں ہوگی۔


فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی مالی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوگئی تو انصا رومہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان و نفقہ میں اضافہ کا مطالبہ کر دیا۔
نبیﷺ چونکہ نہایت سادگی پسند تھے اس لیے ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئےاور بیویوں سے علیحدگی اختیار کرلی جو ایک مہینے تک جاری رہی۔
بالآخر اللہ تعالی نےیہ آیت نازل فرمائی: (يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (28) وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا) (الاحزاب:28-29) اس کے بعد نبی ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو یہ آیت سنا کر انہیں اختیار دیا۔
تاہم انہیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کے بجائے اپنے والدین سے مشورے کے بعد کوئی اقدام کرنا۔
حضرت عائشہ نے کہا: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے بارے میں مشورہ کروں۔
بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں۔
یہی بات دیگر ازواج مطہرات نے بھی کہی اور کسی نے بھی رسول اللہﷺ کو چھوڑ کر دنیا کے عیش وآرام کو ترجیح نہیں دی۔
(صحیح بخاری تفسیر سورہ احزاب۔
ماخوذ از تفسیراحسن البیان)

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2203