صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
1. بَابُ فَضْلُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ:
باب: جہاد کی فضیلت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 2783
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے منصور بن معتمر نے بیان کیا مجاہد سے ‘ انہوں نے طاؤس سے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فتح مکہ کے بعد اب ہجرت (فرض) نہیں رہی البتہ جہاد اور نیت بخیر کرنا اب بھی باقی ہیں اور جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو نکل کھڑے ہوا کرو۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3189  
´دغا بازی کرنے والے پر گناہ خواہ وہ کسی نیک آدمی کے ساتھ ہو یا بےعمل کے ساتھ`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ لَا هِجْرَةَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا، وَقَالَ: يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ وَلَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهُ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا الْإِذْخِرَ فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِمْ، قَالَ: إِلَّا الْإِذْخِرَ . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا، اب (مکہ سے) ہجرت فرض نہیں رہی۔ البتہ جہاد کی نیت اور جہاد کا حکم باقی ہے۔ اس لیے جب تمہیں جہاد کے لیے نکالا جائے تو فوراً نکل جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن یہ بھی فرمایا تھا کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کئے، اسی دن اس شہر (مکہ) کو حرم قرار دے دیا۔ پس یہ شہر اللہ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک کے لیے حرام ہی رہے گا، اور مجھ سے پہلے یہاں کسی کے لیے لڑنا جائز نہیں ہوا۔ اور میرے لیے بھی دن کی صرف ایک گھڑی کے لیے جائز کیا گیا۔ پس اب یہ مبارک شہر اللہ تعالیٰ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک کے لیے حرام ہے، اس کی حدود میں نہ (کسی درخت کا) کانٹا توڑا جائے، نہ یہاں کے شکار کو ستایا جائے، اور کوئی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے سوا اس شخص کے جو (مالک تک چیز کو پہنچانے کے لیے) اعلان کرے اور نہ یہاں کی ہری گھاس کاٹی جائے۔ اس پر عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، یا رسول اللہ! اذخر کی اجازت دے دیجئیے۔ کیونکہ یہ یہاں کے سناروں اور گھروں کی چھتوں پر ڈالنے کے کام آتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اذخر کی اجازت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ: 3189]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3189 باب: «بَابُ إِثْمِ الْغَادِرِ لِلْبَرِّ وَالْفَاجِرِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے واضح فرمایا کہ دغا بازی (دھوکہ دہی) کرنا سخت گناہ ہے چاہے کوئی دغا بازی نیک آدمی کے ساتھ ہو یا گنہگار کے، مگر دغا باز ہر حال میں دغا بازی کے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ ترجمۃ الباب کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حدیث نقل فرمائی ہے اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مکہ ایک حرمت والا شہر ہے اور وہاں کسی قسم کی لڑائی کرنا اللہ کے نزدیک حرام ہے، لیکن جب سیاق کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو مکہ والوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عہد کیا تھا اسے توڑ ڈالا، لہذا مکہ والوں نے دغا کیا، بنو خزاعہ کے مقابلے میں انہوں نے بنو بکر والوں کی مدد کی تو اللہ تعالی نے اس جرم کی پاداش میں انہیں سخت ترین سزا دی کہ حرمت والے شہر مکہ میں بھی انہیں مار ڈالنے کی اجازت عطا کی، لہذا یہاں سے ان کا دغا باز ہونا ثابت ہوا اور انہیں سخت ترین سزا دی گئی کہ حرمت والے شہر میں لڑنے کی اجازت ایمان والوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عطا کی گئی کیوں کہ وہ دغا باز تھے اور دغا بازی کبیرہ گناہ ہے، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے، اسی مناسبت کا ذکر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں، آپ لکھتے ہیں:
«و يحتمل أن يكون أشار بذالك إلى ما وقع من سبب الفتح الذى ذكر فى الحديث و هو غدر قريش بخزاعة حلفاء النبى صلى الله عليه وسلم لما تحاربوا مع بني بكر حلفاء قريش، فأمرت قريش بني بكر و أعانوهم على خزاعة و بيوتهم فقتلوا منهم جماعة.» [فتح الباري، ج 6، ص: 350]
ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وجه مطابقة الترجمة لحديث مكة، أن النبى صلى الله عليه وسلم نص على أنها اختصت بالحرمة إلا فى الساعة المستثناه و ليس المراد حرمة قتل المؤمن البر فيها.» [المتواري، ص: 200]
ترجمۃ الباب سے مطابقت کی وجہ حدیث مکہ میں یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص فرمایا: مکہ کی حرمت کو سوائے اس استثنائی گھٹری میں (مکہ میں لڑنا جائز نہیں ہوا جس کا ذکر سابقہ اوراق میں کیا گیا) اور اس کی حرمت سے مراد یہ نہیں کہ مؤمن نیک آدمی کو اس میں قتل کیا جائے۔
فائدہ:
بعض منکرین حدیث مذکورہ بالا حدیث پر اشکال وارد کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: «لا هجرة و لكن جهاد و نية» یعنی ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت باقی ہے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن مجید قیامت تک ہجرت کو برقرار رکھتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
« ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ﴾ » [الانفال: 75]
اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا پس یہ لوگ بھی تم میں سے ہیں۔
مندرجہ بالا آیت کو نقل کرنے کے بعد ان کا دعوی یہ ہے کہ حدیث جس میں ہجرت کے عمل کو ختم کر دیا گیا ہے وہ آیت کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل عمل ہو گی۔
دراصل یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جو کہ سرسری طور پر قرآن اور احادیث کا مطالعہ کے بعد پیدا ہوتی ہے۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہرگز یہ حکم نہیں ہے کہ ہجرت کا حکم منسوخ ہے، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر غور کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے، یعنی ان صحابہ کے لئے فتح مکہ کے بعد ہجرت کی فرضیت کو ساقط کیا تھا نہ کہ ہجرت کے حکم کو ساقط فرمایا گیا۔ اصول حدیث کا معروف قاعدہ ہے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی شرح کرتی ہے، بعض روایات کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اسی مسئلے پر اختلاف پیدا ہوا، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی، خبادہ بن ابی امیہ فرماتے ہیں:
«أن رجلا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال بعضهم أن الهجرة قد انقطعت فاختلفوا فى ذالك، قال: فانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم! أن أناسا يقولون، أن الهجرة قد انقطعت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أن الهجرة لا تنقطع ما كان الجهاد.» [مسند احمد، ج 27، ص: 142، صححه الحافظ ابن حجر رحمه الله فى الإصابة]
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے بعضوں نے یہ کہا کہ ہجرت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے، اس مسئلے میں (صحابہ میں) اختلاف ہوا تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! لوگ کہتے ہیں کہ ہجرت (کا حکم) منقطع ہو گیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یقینا ہجرت (کا حکم) منقطع نہ ہو گا جب تک جہاد جاری رہے گا۔
امام الطحاوی رحمہ اللہ نے مشکل الآثار میں حدیث کا ذکر فرمایا کہ:
«لا تنقطع الهجرة ما قوتل الكفار.» [شرح مشكل الآثار للطحاوي، ج 7، رقم: 2631]
جب تک کفار سے قتال ہو گا تب تک ہجرت رہے گی۔
ان احادیث سے واضح ہوا کہ جب تک جہاد قائم رہے گا تب تک ہجرت کا حکم بھی باقی رہے گا، لہذا ہجرت نہیں ہے فتح مکہ کے بعد اس کا مطلب یہ ہے کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتح مکہ کے روز ہجرت کی ان کے لئے ہجرت کی فرضیت ساقط ہو گئی، نہ کہ قیامت تک ہجرت کا حکم منقطع ہوا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 469   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2773  
´عام اعلان جہاد کے وقت فوراً نکلنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دیا جائے تو فوراً نکل کھڑے ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2773]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جب کافروں سے جہاد کا موقع آئےتو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جہاد میں عملی طور پر شریک ہونا چاہیے۔

(2)
ایک باقاعدہ اسلامی حکومت میں امیر کے حکم سے جہاد کیا جاتا ہے۔
لیکن اگر ایسی صورت حال نہ ہو اور کسی علاقے کے مسلمان کفار کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہوں تو مسلمانوں کو خود منظم طور پر جہاد کرنا چاہیے۔
اس صورت میں امیر جہاد جس محاذ پر بھیجے جانا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2773   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1590  
´ہجرت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت باقی ہے، اور جب تم کو جہاد کے لیے طلب کیا جائے تو نکل پڑو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1590]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مکہ سے خاص طور پر مدینہ کی طرف ہجرت نہیں ہے کیوں کہ مکہ اب دار السلام بن گیا ہے،
البتہ دار الکفر سے دار السلام کی طرف ہجرت تا قیامت باقی رہے گی جیسا کہ بعض احادیث سے ثابت ہے اور مکہ سے ہجرت کے انقطاع کے سبب جس خیر و بھلائی سے لوگ محروم ہو گئے اس کا حصول جہاد اور صالح نیت کے ذریعہ ممکن ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1590   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2480  
´کیا ہجرت ختم ہو گئی؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح (مکہ) کے دن فرمایا: اب (مکہ فتح ہو جانے کے بعد مکہ سے) ہجرت نہیں (کیونکہ مکہ خود دارالاسلام ہو گیا) لیکن جہاد اور (ہجرت کی) نیت باقی ہے، جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کو کہا جائے تو نکل پڑو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2480]
فوائد ومسائل:
چونکہ فتح مکہ سے پہلے جہاں آدمی رہ رہا تھا۔
اسلام لانے کے بعد اسے وہاں سے مدینہ کو ہجرت کرنا واجب تھا۔
اور مکہ ان تمام جگہوں کا مرکز تھا۔
فتح مکہ کے بعد وہ دارالاسلام بن گیا۔
تو اس سے ہجرت کا کوئی معنی باقی نہ رہا۔
مگر باقی دنیا میں جہاں کہیں احوال دگرگوں ہو ں تو اپنے اسلام اور ایمان کی حفاظت کےلئے نقل مکانی مطلوب وماجور ہے۔
اور ایسے ہی جہاد بھی قیامت تک جاری ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2480   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2783  
2783. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فتح مکہ کے بعد اب ہجرت نہیں رہی، البتہ جہاد کرنا اور اچھی نیت کرنا اب بھی باقی ہیں۔ اور جب تمھیں جہاد کی خاطر نکلنے کے لیے کہا جائے تو فوراً نکل پڑو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2783]
حدیث حاشیہ:
یعنی اب فتح مکہ ہونے کے بعد وہ خود دارالاسلام ہوگیا‘ اس لئے یہاں سے ہجرت کرکے مدینہ آنے کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا۔
یہ مطلب نہیں کہ ہجرت کا سلسلہ سرے سے ہی ختم ہوگیا ہے جہاں تک ہجرت کا عام تعلق ہے یعنی دنیا کے کسی بھی دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف ہجرت‘ تو اس کا حکم اب بھی باقی ہے مگر اس کے لئے کچھ شرائط ہیں جن کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
یعنی قیامت تک جہاد فرض رہے گا‘ دوسری حدیث میں ہے کہ جب سے مجھ کو اللہ نے بھیجا قیامت تک جہاد ہوتا رہے گا‘ یہاں تک کہ اخیر میں میری امت دجال سے مقابلہ کرے گی۔
جہاد اسلام کا ایک رکن اعظم ہے اور فرض کفایہ ہے لیکن جب ایک جگہ ایک ملک کے مسلمان کافروں کے مقابلہ سے عاجز ہو جائیں تو ان کے پاس والوں پر‘ اس طرح تمام دنیا کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے اور اس کے ترک سے سب گنہگار ہوتے ہیں۔
اسی طرح جب کافر مسلمانوں کے ملک پر چڑھ آئیں تو ہر مسلمان پر جہاد فرض ہو جاتا ہے یہاں تک کہ عورتوں اور بوڑھوں اور بچوں پر بھی۔
ہمارے زمانہ میں چند دنیادار خوشامد خورے جھوٹے دغا باز مولویوں نے کافروں کی خاطر سے عام مسلمانوں کو بہکا دیا ہے کہ اب جہاد فرض نہیں رہا‘ ان کو خدا سے ڈرنا چاہئے اور توبہ کرنا بھی ضروری ہے‘ جہاد کی فرضیت قیامت تک باقی رہے گی۔
البتہ یہ ضرور ہے کہ ایک امام عادل سے پہلے بیعت کی جائے اور (محارب)
کافروں کو حسب وعدہ نوٹس دیا جائے اگر وہ اسلام یا جزیہ قبول نہ کریں‘ اس وقت اللہ پر بھروسہ کرکے ان سے جنگ کی جائے اور فتنہ اور فساد اور عورتوں اور بچوں کی خونریزی کسی شریعت میں جائز نہیں ہے۔
(وحیدی)
لفظ جہاد کی تشریح میں حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
والجھاد بکسر الجیم أصله لغة المشقة یقال جھدت جھادا بلغة المشقة وشرعا بذل الجھد في قتال الکفار ویطلق أیضا على مجاھدة النفس والشیطان والفساق فأما مجاھدة النفس فعلی تعلم أمور الدین ثم علی العمل بھا علی تعلیمھا وأما مجاھدة الشیطان فعلى دفع مایأتي من الشبھات وما یزینه من الشھوات وأما مجاھدة الکفار فنقع فبالید والمال واللسان والقلب وأما مجاھدة الفساق فبالید ثم اللسان ثم القلب (فتح الباری)
یعنی لفظ جہاد جیم کے کسرہ کے ساتھ لغت میں مشقت پر بولا جاتا ہے اور شریعت میں (محارب)
کافروں سے لڑنے پر اور یہ لفظ نفس اور شیطان اور فساق کے مجاہدات پر بھی بولا جاتا ہے پس نفس کے ساتھ جہاد دینی علوم کا حاصل کرنا‘ پھر ان پر عمل کرنا اور دوسروں کو انہیں سکھانا ہے اور شیطان کے ساتھ جہاد یہ کہ اس کے لائے ہوئے شبہات کو دفع کیا جائے اور ان کو جو وہ شہوات کو مزین کرکے پیش کرتا ہے‘ ان سب کو دفع کرنا شیطان کے ساتھ جہاد کرنا ہے اور محارب کافروں سے جہاد ہاتھ اور مال اور زبان اور دل کے ساتھ ہوتا ہے اور فاسق فاجر لوگوں کے ساتھ جہاد یہ کہ ہاتھ سے ان کو افعال بد سے روکا جائے پھر زبان سے‘ پھر دل سے۔
مطلب آپ کا یہ تھا کہ مجاہد جب جہاد کے لئے نکلتا ہے تو اس کا سونا‘ بیٹھنا‘ چلنا‘ گھوڑے کا دانہ پانی کرنا‘ سب عبادت ہی عبادت ہوتا ہے تو جہاد کے برابر دوسری کون عبادت ہوسکتی ہے البتہ کوئی برابر عبادت میں مصروف رہے ذرا دم نہ لے تو شاید جہاد کے برابر ہو مگر ایسا کس سے ہوسکتا ہے۔
دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکر الٰہی جہاد سے بھی افضل ہے‘ ایک حدیث میں ہے کہ ایام عشر میں عبادت کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں‘ ان حدیثوں میں تناقض نہیں ہے بلکہ سب اپنے محل اور موقع پر دوسرے تمام اعمال سے افضل ہیں مثلاً جب کافروں کا زور بڑھ رہا ہو تو جہاد سب عملوں سے افضل ہوگا اور جب جہاد کی ضرورت نہ ہو تو ذکر الٰہی سب سے افضل ہوگا۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:
«رجعنا من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» یعنی نفس کشی اور ریاضت کو آپ نے بڑا جہاد فرمایا (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2783   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2783  
2783. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فتح مکہ کے بعد اب ہجرت نہیں رہی، البتہ جہاد کرنا اور اچھی نیت کرنا اب بھی باقی ہیں۔ اور جب تمھیں جہاد کی خاطر نکلنے کے لیے کہا جائے تو فوراً نکل پڑو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2783]
حدیث حاشیہ:

مکہ فتح ہونے کے بعد وہ خود دارالسلام بن گیا،اب یہاں سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آنے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا۔
اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ سرے سے ہجرت کا سلسلہ ہی ختم ہوگیا ہے بلکہ دنیا کے کسی بھی دارالحرب سے دارالسلام کی طرف ہجرت کرنے کا حکم بھی اب باقی ہے مگر اس کی کچھ شرائط ہیں جنھیں آئندہ بیان کیا جائے گا،البتہ جہاد کی فرضیت قیامت تک باقی رہے گی۔
ایک حدیث میں ہے:
جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے،اس وقت سے قیامت تک جہاد ہوتا رہے گا یہاں تک کہ میری امت کا آخری گروہ دجال سے لڑائی کرے گا۔
(مسند أحمد 345/3)

جہاد اگرچہ اسلام کے بنیادی ارکان میں شامل نہیں ہے لیکن اسلام نے اس کی جو فضیلت اور اہمیت متعین کردی ہے اسے کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کو دین اسلام کو کوہان کی چوٹی قراردیا ہے۔
(مسند أحمد: 234/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2783