سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
47. باب مَا جَاءَ فِي كَسْبِ الْحَجَّامِ
باب: پچھنا لگانے والے کی کمائی کا بیان۔
حدیث نمبر: 1277
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ مُحَيِّصَةَ أَخَا بَنِي حَارِثَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِجَارَةِ الْحَجَّامِ، فَنَهَاهُ عَنْهَا، فَلَمْ يَزَلْ يَسْأَلُهُ، وَيَسْتَأْذِنُهُ، حَتَّى قَالَ: " اعْلِفْهُ نَاضِحَكَ، وَأَطْعِمْهُ رَقِيقَكَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَأَبِي جُحَيْفَةَ، وَجَابِرٍ، وَالسَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مُحَيِّصَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وقَالَ أَحْمَدُ: إِنْ سَأَلَنِي حَجَّامٌ نَهَيْتُهُ، وَآخُذُ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
محیصہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھنا لگانے والے کی اجرت کی اجازت طلب کی، تو آپ نے انہیں اس سے منع فرمایا ۱؎ لیکن وہ باربار آپ سے پوچھتے اور اجازت طلب کرتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: اسے اپنے اونٹ کے چارہ پر خرچ کرو یا اپنے غلام کو کھلا دو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- محیصہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں رافع بن خدیج، جحیفہ، جابر اور سائب بن یزید سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۴- احمد کہتے ہیں: اگر مجھ سے کوئی پچھنا لگانے والا مزدوری طلب کرے تو میں نہیں دوں گا اور دلیل میں یہی حدیث پیش کروں گا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 39 (3422)، سنن ابن ماجہ/التجارات 10 (2166)، (تحفة الأشراف: 11238)، و موطا امام مالک/الاستئذان 10 (28مرسلا) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ ممانعت اس وجہ سے تھی کہ یہ ایک گھٹیا اور غیر شریفانہ عمل ہے، جہاں تک اس کے جواز کا معاملہ ہے تو آپ نے خود ابوطیبہ کو پچھنا لگانے کی اجرت دی ہے جیسا کہ کہ اگلی روایت سے واضح ہے، جمہور اسی کے قائل ہیں اور ممانعت والی روایت کو نہیں تنزیہی پر محمول کرتے ہیں یا کہتے ہیں کہ وہ منسوخ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2166) ، أحاديث البيوع
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2166  
´حجام (پچھنا لگانے والے) کی کمائی کا بیان۔`
محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حجام (پچھنا لگانے والے) کی کمائی کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس سے منع فرمایا، انہوں نے اس کی ضرورت بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے پانی لانے والے اونٹوں کو اسے کھلا دو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2166]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  سینگی لگانا ایک طریقہ علاج ہے جس میں خاص طریقے سے جسم سے خون نکالا جاتا ہے۔
اسے پچھنے لگانا بھی کہتے ہیں۔

(2)
  سینگی لگانے کی اجرت حرام نہیں ورنہ رسول اللہﷺ حضرت ابو طیبہ ؓ کو سینگی لگانے کی اجرت نہ دیتے البتہ نبیﷺ کے منع فرمانے کی وجہ سے اسے ضرورت کے بغیر لینا جائز نہیں، تاہم ضرورت کی بنا پر اس کی اجرت دی اور لی جاسکتی ہے۔
اونٹوں کو کھلانے کا حکم دینے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجرت حرام نہیں بلکہ ضرورت کے بغیر لینا مکروہ ہے۔

(3)
  حضرت حرام بن محیصہ ؓ کا پورا نام حرام بن سعد بن محیصہ بن مسعود انصاری ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ان کی بابت بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات انہیں اپنے دادا کی طرف منسوب کر دیا جتا ہے، یعنی حرام بن سعد بن محیصہ کے بجائے حرام بن محیصہ کہہ دیا جتا ہے جبکہ ان کے والد محیصہ نہیں بلکہ سعد ہیں۔ دیکھیے: (تقريب التهذيب، ترجمة حرام بن سعد: 1173)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2166   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1277  
´پچھنا لگانے والے کی کمائی کا بیان۔`
محیصہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھنا لگانے والے کی اجرت کی اجازت طلب کی، تو آپ نے انہیں اس سے منع فرمایا ۱؎ لیکن وہ باربار آپ سے پوچھتے اور اجازت طلب کرتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: اسے اپنے اونٹ کے چارہ پر خرچ کرو یا اپنے غلام کو کھلا دو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1277]
اردو حاشہ: 1؎:
یہ ممانعت اس وجہ سے تھی کہ یہ ایک گھٹیااورغیرشریفانہ عمل ہے،
جہاں تک اس کے جوازکا معاملہ ہے تو آپﷺ نے خود ابوطیبہ کو پچھنا لگانے کی اجرت دی ہے جیساکہ کہ اگلی روایت سے واضح ہے،
جمہوراسی کے قائل ہیں اورممانعت والی روایت کو نہیں تنزیہی پر محمول کرتے ہیں یا کہتے ہیں کہ وہ منسوخ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1277