سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
54. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي أَكْلِ الثَّمَرَةِ لِلْمَارِّ بِهَا
باب: راہی کے لیے راستہ کے درخت کا پھل کھانے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1287
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ دَخَلَ حَائِطًا فَلْيَأْكُلْ، وَلَا يَتَّخِذْ خُبْنَةً ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَبَّادِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، وَرَافِعِ بْنِ عَمْرٍو، وَعُمَيْرٍ مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَلِيمِ، وَقَدْ رَخَّصَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لِابْنِ السَّبِيلِ فِي أَكْلِ الثِّمَارِ، وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ إِلَّا بِالثَّمَنِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی باغ میں داخل ہو تو (پھل) کھائے، کپڑوں میں باندھ کر نہ لے جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث غریب ہے۔ ہم اسے اس طریق سے صرف یحییٰ بن سلیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، عباد بن شرحبیل، رافع بن عمرو، عمیر مولی آبی اللحم اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم نے راہ گیر کے لیے پھل کھانے کی رخصت دی ہے۔ اور بعض نے اسے ناجائز کہا ہے، الا یہ کہ قیمت ادا کر کے ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/التجارات 67 (2301)، (تحفة الأشراف: 8222) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2301) ، وانظر الذي بعده (1288)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2301  
´کسی کے ریوڑ یا باغ سے گزر ہو تو کیا آدمی اس سے کچھ لے سکتا ہے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی باغ سے گزرے تو (پھل) کھائے، اور کپڑے میں نہ باندھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2301]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
بھوک مٹانے کے لیے مجبوری کے وقت کسی کے باغ سے پھل کھایا جا سکتا ہے۔

(2)
ضرورت سے زائد پھل توڑنا اور کھانے کے بعد بچا ہوا ساتھ لے جانا جائز نہیں بلکہ یہ چوری میں شامل ہے۔

(3)
اگر وہ ساتھ لے جائے تو اسے جرمانہ بھی ہو گا اور جسمانی سزا بھی دی جائے گی۔
سنن بیہقی کی روایت کے مطابق مالی جرمانہ یہ ہے کہ چوری شدہ مال کی قیمت سے دگنا وصول کیا جائے اور جسمانی سزا یہ ہے کہ چند کوڑے مارے جائیں دیکھیے: (سبل السلام شرح بلوغ المرام، كتاب الحدود، باب حد السرقة، حديث: 11)

(4)
اگر چوری شدہ مال کی قیمت چوتھائی دینار (ایک حاشہ ایک رتی۔
تقریباً ایک گرام سونا)

کے برابر ہو تو چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجة، حديث: 2585)

(5)
ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف کہا ہے لیکن تحقیق و تخریج میں اس پر کافی بحث کی ہے اور آخر میں قوی سند کے ساتھ حضرت عمررضی اللہ عنہ سےمروی ایک ورایت پیش کی ہے دو مذکورہ روایت کے ہم معنی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے شیخ رحمہ اللہ کے نزدیک مذکورہ روایت صرف سنداً ضعیف ہے، معناً صحیح ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2301