سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
63. باب مَا جَاءَ فِي الْعَرَايَا وَالرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
باب: عاریت والی بیع کے جائز ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1300
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ، إِلَّا أَنَّهُ قَدْ أَذِنَ لِأَهْلِ الْعَرَايَا، أَنْ يَبِيعُوهَا بِمِثْلِ خَرْصِهَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ هَكَذَا رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق هَذَا الْحَدِيثَ، وَرَوَى أَيُّوبُ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى عَنِ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ "، وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا "، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق.
زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا، البتہ آپ نے عرایا والوں کو اندازہ لگا کر اسے اتنی ہی کھجور میں بیچنے کی اجازت دی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- زید بن ثابت رضی الله عنہ کی حدیث کو محمد بن اسحاق نے اسی طرح روایت کیا ہے۔ اور ایوب، عبیداللہ بن عمر اور مالک بن انس نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور اسی سند سے ابن عمر نے زید بن ثابت سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے بیع عرایا کی اجازت دی۔ اور یہ محمد بن اسحاق کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 75 (2172، 2173)، و82 (2184)، و 84 (2192)، والشرب والمساقاة 17 (2380)، صحیح مسلم/البیوع 14 (1539)، سنن ابی داود/ البیوع 20 (3362)، سنن النسائی/البیوع 32 (4536، 4540)، و 34 (4543، 4543)، سنن ابن ماجہ/التجارات55 (2268، 2269)، (تحفة الأشراف: 3723)، وط/البیوع 9 (14)، و مسند احمد (5/181، 182، 188، 192) ویأتي برقم 1302 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: عرایا کی صورت یہ ہے مثلاً کوئی شخص اپنے باغ کے دو ایک درخت کا پھل کسی مسکین کو دیدے لیکن دینے کے بعد باربار اس کے آنے جانے سے اسے تکلیف پہنچے تو کہے: بھائی اندازہ لگا کر خشک یا تر کھجور ہم سے لے لو اور اس درخت کا پھل ہمارے لیے چھوڑ دو ہر چند کہ یہ مزابنہ ہے لیکن چونکہ یہ ایک ضرورت ہے، اور وہ بھی مسکینوں کو مل رہا ہے اس لیے اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔
۲؎: مطلب یہ ہے کہ محمد بن اسحاق نے «عن نافع، عن ابن عمر، عن زيد بن ثابت» کے طریق سے: محاقلہ اور مزابنہ سے ممانعت کو عرایا والے جملے کے ساتھ روایت کیا ہے، جب کہ ایوب وغیرہ نے «عن نافع، عن ابن عمر» کے طریق سے (یعنی مسند ابن عمر سے) صرف محاقلہ و مزابنہ کی ممانعت والی بات ہی روایت کی ہے، نیز «عن أيوب، عن ابن عمر، عن زيد بن ثابت» کے طریق سے بھی ایک روایت ہے مگر اس میں محمد بن اسحاق والے حدیث کے دونوں ٹکڑے ایک ساتھ نہیں ہیں، بلکہ صرف «عرایا» والا ٹکڑا ہی ہے، اور بقول مؤلف یہ روایت زیادہ صحیح ہے (یہ روایت آگے آ رہی ہے)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2268 - 2269)
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1300  
´عاریت والی بیع کے جائز ہونے کا بیان۔`
زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا، البتہ آپ نے عرایا والوں کو اندازہ لگا کر اسے اتنی ہی کھجور میں بیچنے کی اجازت دی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1300]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
عرایا کی صورت یہ ہے مثلاً کوئی شخص اپنے باغ کے دوایک درخت کا پھل کسی مسکین کو دے دے لیکن دینے کے بعد بار باراس کے آنے جانے سے اسے تکلیف پہنچے توکہے:
بھائی اندازہ لگاکرخشک یا ترکھجورہم سے لے لو اور اس درخت کا پھل ہمارے لیے چھوڑدو ہر چند کہ یہ مزابنہ ہے لیکن چونکہ یہ ایک ضرورت ہے،
اور وہ بھی مسکینوں کومل رہا ہے اس لیے اسے جائزقرار دیا گیا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1300