سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
63. باب مَا جَاءَ فِي الْعَرَايَا وَالرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
باب: عاریت والی بیع کے جائز ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1301
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَوْلَى ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ "، أَوْ كَذَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ وسق سے کم میں عرایا کے بیچنے کی اجازت دی ہے یا ایسے ہی کچھ آپ نے فرمایا۔ راوی کو شک ہے کہ حدیث کے یہی الفاظ ہیں یا کچھ فرق ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 83 (2190)، والشرب والمساقاة 17 (2382)، صحیح مسلم/البیوع 14 (1541)، سنن ابی داود/ البیوع 21 (3364)، سنن النسائی/البیوع 35 (4545)، (تحفة الأشراف: 14943)، و مسند احمد (2/237) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 492  
´بیع عرایا`
«. . .ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ارخص فى بيع العرايا بخرصها فيما دون خمسة اوسق؛ او فى خمسة اوسق شك داود فى خمسة او دون خمسة. . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «عَريهّ» والے کو درختوں پر لگی ہوئی کھجوروں یا انگوروں کو اندازے سے (اُکّا) بیچنے کی اجازت دی بشرطیکہ یہ پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم ہوں، پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم میں داود (بن الحصین راوی)کو شک ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 492]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2190، ومسلم 75/541، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ کھجور کا درخت جس کا پھل مالک کسی دوسرے شخص کو بطور تحفہ یا بطور صدقہ عاریتاً کھانے کے لئے دے تو وہ عُریہ کہلاتا ہے جس کی جمع عرایا ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ انگور وغیرہ پھلوں میں بھی ہو سکتا ہے۔
➋ محمد بن اسحاق بن یسار المدنی نے فرمایا: عریہ سے مراد یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کو کھجوروں کے درخت ہبہ کر دے پھر اس شخص پر ان کی دیکھ بھال مشکل ہو تو وہ اندازے سے کھجوریں لے کر انھیں بیچ دے۔ [سنن ابي داؤد: 3366 وسنده صحيح]
➌ بعض علماء کہتے ہیں کہ عُریہ صرف اسی کو بیچنے کی اجازت ہے جس نے کسی دوست یا غریب کو یہ درخت اس سال کے پھل کے لئے تحفتاً دیا ہے یعنی یہ سودا صرف مالک ہی کر سکتا ہے۔
➍ یہ حدیث آنے والی حدیث [158] کے عموم کی تخصیص ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 157   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 713  
´بیع عرایا، درختوں اور (ان کے) پھلوں کی بیع میں رخصت`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عرایا میں اجازت و رخصت عنایت فرما دی۔ بایں صورت کہ تازہ کھجوروں کو خشک کے عوض اندازے سے فروخت کر لیا جائے، جبکہ یہ پانچ وسق کی مقدار سے کم ہوں، یا پھر پانچ وسق ہوں۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 713»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع الثمر علي رؤوس النخل بالذهب أو الفضة، حديث:2190، ومسلم، البيوع، باب تحريم بيع الرطب بالتمر إلا في العرايا، حديث:1541.»
تشریح:
1. اس حدیث میں پانچ وسق سے کم یا زیادہ سے زیادہ پانچ وسق تک فروخت کی اجازت ہے‘ مگر یہ راوی کا شک ہے۔
جس راوی کو شک ہے اس کا نام داود بن حصین ہے۔
اس شک کی وجہ سے پانچ وسق سے کم مقدار کی فروخت ہی درست ہوگی۔
ایک وسق میں تقریباً چار من ہوتے ہیں تو پانچ وسق کی مقدار تقریباً بیس من ہوئی۔
اس طرح گویا بیس من سے کم تک کی فروخت کی اجازت ہے۔
2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خرص‘ یعنی اندازہ و تخمینہ شرع میں جائز ہے بشرطیکہ تخمینہ لگانے والا اس فن سے بخوبی واقفیت رکھتا ہو اور کسی کی رو رعایت کیے بغیر ایمان داری سے اندازہ لگاتا ہو‘ ایسی صورت میں ایک آدمی کا تخمینہ بھی درست تسلیم کیا جائے گا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 713   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3364  
´بیع عریہ کس مقدار تک درست ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ وسق سے کم یا پانچ وسق تک عرایا کے بیچنے کی رخصت دی ہے (یہ شک داود بن حصین کو ہوا ہے)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جابر کی حدیث میں چار وسق تک ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3364]
فوائد ومسائل:
ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔
اور ایک صاع تقریبا ڈھائی کلو کا اس حساب سے ایک وسق کا وزن تقریبا 150 کلو اور پانچ وسق کا وزن تقریبا 750 کلو تقریبا 19 من ہواس دور میں 5 وسق ایک اونٹ کا بوجھ سمجھا جاتا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3364   
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ نَحْوَهُ، وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرْخَصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فِي خَمْسَةِ أَوْسُقٍ، أَوْ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ ".
اس سند سے سابقہ حدیث کی طرح روایت آئی ہے۔ مالک ۱؎ سے یہ حدیث مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ وسق میں یا پانچ وسق سے کم میں عرایا کو بیچنے کی اجازت دی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ اسی سند سے اسی حدیث کی تکرار ہے، کیونکہ سبھی کے یہاں یہ حدیث اسی سند ( «مالك، عن داود به») سے مروی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع