سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
76. باب النَّهْىِ عَنِ الْبَيْعِ، فِي الْمَسْجِدِ
باب: مسجد میں خرید و فروخت کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1321
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَارِمٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَبِيعُ، أَوْ يَبْتَاعُ فِي الْمَسْجِدِ، فَقُولُوا: لَا أَرْبَحَ اللَّهُ تِجَارَتَكَ، وَإِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَنْشُدُ فِيهِ ضَالَّةً، فَقُولُوا: لَا رَدَّ اللَّهُ عَلَيْكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، كَرِهُوا الْبَيْعَ، وَالشِّرَاءَ فِي الْمَسْجِدِ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَدْ رَخَّصَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ فِي الْمَسْجِدِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں خرید و فروخت کر رہا ہو تو کہو: اللہ تعالیٰ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے، اور جب ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں گمشدہ چیز (کا اعلان کرتے ہوئے اسے) تلاش کرتا ہو تو کہو: اللہ تمہاری چیز تمہیں نہ لوٹائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،
۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ مسجد میں خرید و فروخت ناجائز سمجھتے ہیں۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،
۳- بعض اہل علم نے اس میں خرید و فروخت کی رخصت دی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 68 (176)، (تحفة الأشراف: 14591) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ان لوگوں کا کہنا ہے کہ حدیث میں جو اس کی ممانعت آئی ہے وہ نہی تنزیہی ہے تحریمی نہیں، یعنی نہ بیچنا بہتر ہے، مگر یہ نری تاویل ہے، جب صحیح حدیث میں بالصراحت ممانعت موجود ہے تو پھر مساجد میں خرید و فروخت سے باز رہتے ہوئے بازار اور مساجد میں فرق کو قائم رکھنا چاہیئے، پہلی قومیں اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے احکام کی نافرمانیوں اور غلط تاویلوں کی وجہ سے تباہ ہو گئی تھیں۔ «اللهم أحفظنا بما تحفظ به عبادك الصالحين»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (733) ، الإرواء (1495)
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 200  
´مساجد میں خرید و فروخت کی ممانعت`
«. . . وعنه رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: إذا رايتم من يبيع او يبتاع في المسجد؛ فقولوا له: لا اربح الله تجارتك . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے یہ روایت بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کسی شخص کو مسجد میں خرید و فروخت کرتے دیکھو تو اسے کہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاروبار و تجارت میں نفع نہ دے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 200]

لغوی تشریح:
«يَبْتَاعُ» «يَشْتَرِي» کے معنی ہیں ہے یعنی خریدنا۔
«لَا أَرْبَحَ اللَّهُ تِجَارَتَكَ» یعنی اللہ تعالیٰ تیری اس تجارت کو نفع بخش نہ بنایے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے مساجد میں خرید و فروخت کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔
➋ اس سے مقصود یہ ہے کہ مسجدیں تجارتی منڈیاں نہ بنا لی جایئں۔ مسجدیں تو صرف عبادت الٰہی کے لئے تعمیر کی جاتی ہیں، اگر ان میں بھی تجارت شروع ہو جائے تو یہ اپنا مقصد تعمیر کھو بیٹھیں گی۔
➌ مساجد کو صرف یاد الٰہی کے لئے مخصوص ہونا چاہئیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 200   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1321  
´مسجد میں خرید و فروخت کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں خرید و فروخت کر رہا ہو تو کہو: اللہ تعالیٰ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے، اور جب ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں گمشدہ چیز (کا اعلان کرتے ہوئے اسے) تلاش کرتا ہو تو کہو: اللہ تمہاری چیز تمہیں نہ لوٹائے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1321]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ حدیث میں جو اس کی ممانعت آئی ہے وہ نہی تنزیہی ہے تحریمی نہیں،
یعنی نہ بیچنا بہترہے،
مگر یہ نری تاویل ہے،
جب صحیح حدیث میں بالصراحت ممانعت موجودہے توپھرمساجد میں خریدوفروخت سے باز رہتے ہوئے بازار اور مساجد میں فرق کو قائم رکھنا چاہئے،
پہلی قومیں اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے احکام کی نافرمانیوں اور غلط تاویلوں کی وجہ سے تباہ ہوگئی تھیں۔
(اللهم أحفظنا بما تحفظ به عبادك الصالحين)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1321