سنن ترمذي
كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلے
39. باب مَا جَاءَ فِي الْقَطَائِعِ
باب: جاگیر دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1380
قَالَ: قُلْتُ لِقُتَيْبَةَ بْنِ سَعِيدٍ: حَدَّثَكُمْ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ قَيْسٍ الْمَأْرِبِيُّ , حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ شَرَاحِيلَ , عَنْ سُمَيِّ بْنِ قَيْسٍ , عَنْ سُمَيْرٍ، عَنْ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ، أَنَّهُ وَفَدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَقْطَعَهُ الْمِلْحَ , فَقَطَعَ لَهُ , فَلَمَّا أَنْ وَلَّى قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمَجْلِسِ: أَتَدْرِي مَا قَطَعْتَ لَهُ , إِنَّمَا قَطَعْتَ لَهُ الْمَاءَ الْعِدَّ , قَالَ: فَانْتَزَعَهُ مِنْهُ , قَالَ: وَسَأَلَهُ عَمَّا يُحْمَى مِنَ الْأَرَاكِ , قَالَ: " مَا لَمْ تَنَلْهُ خِفَافُ الْإِبِلِ " , فَأَقَرَّ بِهِ قُتَيْبَةُ , وَقَالَ: نَعَمْ. حَدَّثَنَا ابْنِ أَبِي عُمَرَ.
ابیض بن حمال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے جاگیر میں نمک کی کان مانگی تو آپ نے انہیں دے دی، لیکن جب وہ پیٹھ پھیر کر واپس جانے لگے تو مجلس میں موجود ایک آدمی نے عرض کیا: جانتے ہیں کہ آپ نے جاگیر میں اسے کیا دیا ہے؟ آپ نے اسے جاگیر میں ایسا پانی دیا ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا ہے۔ (اس سے برابر نمک نکلتا رہے گا) تو آپ نے اس سے اسے واپس لے لیا، اس نے آپ سے پوچھا: پیلو کے درختوں کی کون سی جگہ (بطور رمنہ) گھیری جائے؟ آپ نے فرمایا: جس زمین تک اونٹوں کے پاؤں نہ پہنچے (جو آبادی اور چراگاہ سے کافی دور ہوں)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابیض کی حدیث غریب ہے،
۲- میں نے قتیبہ سے پوچھا کیا آپ سے محمد بن یحییٰ بن قیس ماربی نے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے اقرار کیا اور کہا: ہاں -

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الخراج 36 (3064)، سنن ابن ماجہ/الرہون 17 (2485)، (تحفة الأشراف: 1) (حسن) (یہ سند مسلسل بالضعفاء ہے: ”ثمامہ“ لین الحدیث، اور ”سمیر“ مجہول ہیں، لیکن ابوداود کی دوسری روایت (رقم 3065) سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، اس کی تصحیح ابن حبان اور تحسین البانی نے کی ہے (مالم تنلہ خفاف کے استثناء کے ساتھ) دیکھئے: صحیح ابی داود رقم 2694)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2475)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2475  
´نہروں اور چشموں کو جاگیر میں دینے کا بیان۔`
ابیض بن حمال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اس نمک کو جو نمک سدمآرب کے نام سے جانا جاتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بطور جاگیر طلب کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے انہیں جاگیر میں دے دیا، پھر اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: میں زمانہ جاہلیت میں اس نمک کی کان پر سے گزر چکا ہوں، وہ ایسی زمین میں ہے جہاں پانی نہیں ہے، جو وہاں جاتا ہے، وہاں سے نمک لے جاتا ہے، وہ بہتے پانی کی طرح ہے، جس کا سلسلہ کبھی بند نہیں ہوتا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابیض بن حم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2475]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اسلامی حکومت کا سربراہ کسی مسلمان کو اس کے کسی خاص کارنامے پرانعام کےطور پرزمین کا ٹکڑا دے سکتا ہے اسے جاگیر کہتےہیں۔

(2)
جاگیر میں ایسی چیز نہیں دینی چاہیے جس کی عام لوگوں کو ضرورت ہو۔

(3)
سد مارب کےمقام پرسمندری نمک حاصل ہوتا تھا جیسے کوئی بھی شخص لے کر اپنی ضروروت پوری کرسکتا تھا اوردوسرے مقام پرلے جا کر فروخت کرسکتا تھا۔
حضرت ابیض رضی اللہ عنہ نےچاہا کہ انھیں اس کے ملکیتی حقوق دے دیے جائیں رسول اللہ ﷺ نےان کی یہ درخواست قبول فرمائی۔

(4)
رعیت کا کوئی شخص اگر ایک مفید تجویز پیش کرے تواسے قبول کرلینا چاہیے خواہ اس کے لیے حکمران کو سابقہ فیصلہ تبدیل کرنا پڑے۔

(5)
حضرت ابیض رضی اللہ عنہ نے واپس کرنے کی بجائے صدقہ کر دیا اس طرح واپسی سےمسلمانوں کا جو فائدہ مطلوب تھا وہ بھی حاصل ہوگیا اورصدقے کا ثواب بھی مل گیا۔

(6)
وقت کسی کی ملکیت نہیں ہوتا اس سے ہر شخص کو فائدے اٹھانے کا حق حاصل ہوتا ہے۔

(7)
حضر ت فرخ بن سعید رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابیض رضی اللہ عنہ کے پوتے کے پوتے تھے جوامام مالک کےہم عصر تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2475   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1380  
´جاگیر دینے کا بیان۔`
ابیض بن حمال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے جاگیر میں نمک کی کان مانگی تو آپ نے انہیں دے دی، لیکن جب وہ پیٹھ پھیر کر واپس جانے لگے تو مجلس میں موجود ایک آدمی نے عرض کیا: جانتے ہیں کہ آپ نے جاگیر میں اسے کیا دیا ہے؟ آپ نے اسے جاگیر میں ایسا پانی دیا ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا ہے۔ (اس سے برابر نمک نکلتا رہے گا) تو آپ نے اس سے اسے واپس لے لیا، اس نے آپ سے پوچھا: پیلو کے درختوں کی کون سی جگہ (بطور رمنہ) گھیری جائے؟ آپ نے فرمایا: جس زمین تک اونٹوں کے پاؤں نہ پہنچے (جو آبادی اور چراگاہ سے کافی دور ہوں)۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1380]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(یہ سند مسلسل بالضعفاء ہے:
ثمامہ لین الحدیث،
اور سمیر مجہول ہیں،
لیکن ابوداؤد کی دوسری روایت (رقم 3065) سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے،
اس کی تصحیح ابن حبان اورتحسین البانی نے کی ہے (مالم تنله خفاف کے استثناء کے ساتھ) دیکھئے:
صحیح ابی داؤد رقم 2694)
اور (شاہد کی بناپر حسن لغیرہ ہے کما تقدم)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1380   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3064  
´زمین جاگیر میں دینے کا بیان۔`
ابیض بن حمال ماربی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے نمک کی کان کی جاگیر مانگی (ابن متوکل کی روایت میں ہے: جو مآرب ۱؎ میں تھی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دی، لیکن جب وہ واپس مڑے تو مجلس میں موجود ایک شخص نے عرض کیا: جانتے ہیں کہ آپ نے ان کو کیا دے دیا ہے؟ آپ نے ان کو ایسا پانی دے دیا ہے جو ختم نہیں ہوتا، بلا محنت و مشقت کے حاصل ہوتا ہے ۲؎ وہ کہتے ہیں: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس لے لیا، تب انہوں نے آپ سے پوچھا: پیلو کے درختوں کی کون سی جگہ گھیری جائے؟ ۳؎، آپ نے فرمایا: جہاں جانورو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3064]
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے۔
کہ ایسی کانیں جن کے منافع ظاہر ہوں اورعام لوگوں سے متعلق ہوں وہ کسی کی خاص ملکیت میں نہیں دینی چاہیے۔
بخلاف ان کے جنھیں محنت اور مشقت سے نکالا جاتا ہے۔


امام کو حق ہے کہ عطیہ دے کر واپس لے لے۔


قاضی کا اپنے فیصلے سے رجوع کر لینا کوئی معیوب نہیں۔


امام اور قاضی کے مصاحبین کو چاہیے کہ جو امور ونکات ان کے سامنے واضح نہ ہوں۔
ان سے انہیں مطلع کردیا کریں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3064   
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ قَيْسٍ الْمَأْرِبِيُّ , بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ الْمَأْرِبُ نَاحِيَةٌ مِنْ الْيَمَنِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ وَائِلٍ , وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبْيَضَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , فِي الْقَطَائِعِ يَرَوْنَ جَائِزًا أَنْ يُقْطِعَ الْإِمَامُ لِمَنْ رَأَى ذَلِكَ.
ہم سے محمد بن یحییٰ ابن ابی عمرو نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ہم سے محمد بن یحییٰ بن قیس ماربی نے اسی سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی،
۴- مارب یمن کا ایک خطہٰ ہے اور اسی کی طرف محمد بن یحییٰ ماربی منسوب ہیں،
۵- اس باب میں وائل اور اسماء بنت ابوبکر سے بھی روایت ہے،
۶- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا جاگیر کے سلسلے میں اسی حدیث پر عمل ہے، یہ لوگ امام کے لیے جائز سمجھتے ہیں کہ وہ جس کے لیے مناسب سمجھے اسے جاگیر دے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن) (شاہد کی بنا پر حسن لغیرہ ہے کما تقدم)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2475)